بسم اللہ الرحمن الرحیم ولہ الحمد 

تقلید

اصول دین میں تقلید جائز نہیں ہے بلکہ ضروری ہے کہ انسان اصول دین کو دلیل اوربرہان کے ساتھ جانے۔ اگرچہ دلیل سادہ ہی کیوں نہ ہو۔ منقول ہے کہ ایک بڑھیا عورت چرخہ کات رہی تھی تو اس سے کسی نے پوچھا تو نے اپنے رب کو کیسے پہچانا ہے تو اس نے کہا میں نے اسے اس چرخہ سے پہچانا ہے جب میں اس کو حرکت دیتی ہوں تو یہ حرکت کرنے لگ جاتا ہےاورجب حرکت نہیں دیتی تو یہ رک جاتا ہے جب یہ معمولی سا آلہ-چرخہ- کسی چلانے والے کے بغیر نہیں چل سکتا تو پوری کائنات کا نظام بغیر کسی چلانے والے کے کیسے چل سکتا ہے جب حضورؐ نے اس بڑھیا کا استدلال سنا تو بہت خوش ہوئے اورفرمایا: علیکم بدین العجائز ، بوڑھی عورتوں والے دین کو لازم پکڑو۔ یعنی دلیل سے اپنا عقیدہ اختیار کرو خواہ وہ دلیل سادہ ہی کیوں نہ ہو۔ خلاصہ یہ کہ اصول دین کو دلیل کے ساتھ جانا جائے اس سلسلے میں علماء حق سے راہنمائی لی جاسکتی ہے۔ بلکہ سزاوار ہے کہ انسان اپنے اعتقادات کو علماء حق کے سامنے پیش کرے۔

مسئلہ ۱: فروع دین یعنی دینی مسائل جو کہ عمل کے ساتھ مربوط ہیں ان میں اگر خودانسان مجتہد ہو یعنی قرآن، سنت، اجماع و عقل کے ذریعہ سے شرعی مسائل کا استنباط کرسکتا ہو تو اس کو اپنے نظریے (فتوے) پر عمل کرنا ہوگا۔ مخفی نہ رہے کہ مجتہد بننا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ہے اجتہاد تک پہنچنے کے لیے کافی مدت درکار اوربہت زحمت کرنا پڑتی ہے۔ 

جو شخص مجتہد نہیں ہے اس کا وظیفہ ہے کہ کسی جامع الشرائط مجتہد کی تقلید کرے جیسا کہ ہر فن میں لوگ اس فنّ کے ماہر کی طرف رجوع کرتے ہیں اور ان کی باتوں کو مانتے ہیں۔ فقہ کے ماہر فقہاء ہوتے ہیں لذا دینی مسائل میں ان کی طرف رجوع کیا جائے۔

جو شخص مجتہد نہیں ہے وہ احتیاط پر بھی عمل کرسکتا ہے یعنی اپنے اعمال کو اس طریقے سے انجام دے کہ اسے یقین ہوجائے کہ اس نے اپنے حکم کو انجام دے دیاہے۔ 

لیکن احتیاط پر عمل کرنے کے لیے احتیاط کے موارد اوراحتیاط کے طریقہ کو جاننا ضروری ہے۔

خلاصہ یہ کہ آسان ترین راستہ تقلید ہے۔

سوال: کیا شریعت میں اجتہاد کرنے کی اجازت ہے؟

جواب: شریعت میں اجتہاد کی اجازت ہے جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے بعض صحابیوں کو استنباط کرنے کا طریقہ بھی تعلیم دیاتھا۔([1])

امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں : علینا القاء الاصول و علیکم التفریع، قواعد اوراصول کا بتانا یہ ہمارا کام ہے اور ان سے فرع نکالنا (مسائل کا استنباط کرنا) یہ تمہارا کام ہے۔ چنانچہ امام صادق علیہ السلام سے بھی یہی مضمون منقول ہے۔([2])

نوٹ:اس مسئلے کو ہم نے اپنے تحقیقی رسالہ دفع الشبھات عن الاجتہاد و التقلید میں تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔

مخفی نہ رہے کہ جن لوگوں نے امام صادق علیہ السلام کے مقابلے میں فتوی سازی کا سلسلہ شروع کیا تھا اورقیاس اوراستحسان وغیرہ سے کام لیتے تھے وہ اجتہاد اورتقلید، روایات میں باطل اورمذموم بیان کیا گیا ہے۔

لیکن فقہاء شیعہ، قرآن اورمحمد و آل محمد علیہم السلام کی تعلیمات کی روشنی میں جو شرعی استنباط کرتے ہیں یہ اجتہاد صحیح اورفقہ جعفریہ کی ترجمانی کرتا ہے۔

غیبت کبریٰ میں فقہاء شیعہ کی طرف دینی مسائل میں رجوع، واقع میں ائمہ علیہم السلام کی طرف رجوع ہے کیونکہ فقہاء، باب الائمہ علیہم السلام ہیں اورائمہ طاہرین علیہم السلام باب اللہ ہیں۔ آج کل اجتہاد اورتقلید کے خلاف جو پروپیگنڈہ ہو رہا ہے یہ استعماری سازش کا نتیجہ ہے، مومنین ہوشیار رہیں۔



[1] ۔ تہذیب الاحکام ج۱ ص ۳۸۴ ح ۱۰۹۷۔

[2] ۔وسائل الشیعہ، ج۱۸، ابواب صفات قاضی، ب۶، ح ۵۲۔

© COPYRIGHT 2020 ALJAWAAD ORGAZNIZATION - ALL RIGHTS RESERVED
گروه نرم افزاری رسانه