تکبیرۃ الاحرام
تکبیرۃ الاحرام سے مراد نماز سے پہلے "اللہ اکبر" کہنا ہےاور اس تکبیر سے نماز شروع ہوجاتی ہے۔
مسئلہ ۲۵۵: تکبیرۃ الاحرام سے پہلے چھ تکبیروں کا کہنا مستحب ہے۔
تکبیرۃ الاحرام کے بعد توجہ کا پڑھنا مستحب ہے۔
ہمارے مذہب کے بہت بڑےفقیہ ابن زہرہ متوفی ۵۸۵ فرماتے ہیں کہ تکبیرۃ الاحرام کے بعد کہے:وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَ الْأَرْضَ حَنِيفاً مُسۡلِماً عَلیٰ مِلَّۃِ اِبۡرَاہِیۡمَ وَ دِیۡنِ مُحَمَّدٍ وَ وِلَایَۃِ أمِیۡرِ الۡمُؤمِنِیۡنَ عَلِیٍّ وَ الاَئِمَّۃِ مِنۡ ذُرِیّتِہما وَ مَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِنَّ صَلوٰتِي وَ نُسُكِي وَ مَحْيَايَ وَ مَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَ بِذَلِكَ أُمِرْتُ وَ أَنَا مِنَ الْمُسْلِمِيۡنَ۔([1])
میں اپنا رُو (رخ) کرتا ہوں اس ہستی کی طرف جس نے آسمانوں اورزمین کو خلق کیا در حالانکہ باطل سے دین حق کی طرف جھکنے والا مسلمان (ہوں) (میں) ملت ابراہیم اوردین محمد ﷺ اورامیر المومنین علی اورائمہ علیہم السلام جو کہ ان دونوں کی ذریت سے ہیں کی ولایت پر ہوں اورمیں مشرکین سے نہیں ہوں بے شک میری نماز، اعمال اورمیرا مرنا جینا عالمین کے رب خداکے لیے ہے اس کا کوئی شریک نہیں اوراسی چیز کا مجھے حکم دیاگیا ہے اورمیں مسلمانوں میں سے ہوں۔
شیخ مفید جو کہ سید مرتضی علم الہدی اورسید رضی جامع نہج البلاغہ کے استاداور۴۱۳ کے متوفی ہیں وہ اپنی کتاب مقنعہ اورسلار دیلمی جو کہ ۴۴۸ یا ۴۶۳ کے متوفی ہیں اورمذہب شیعہ کےبزرگ فقہاء سے ہیں وہ اپنی کتاب، مراسم میں لکھتے ہیں تکبیرۃ الافتتاح (تکبیرۃ الاحرام کو تکبیرۃ الافتتاح بھی کہتے ہیں) کے بعد نمازی کہے : "وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضَ حَنِیۡفاً مُسۡلِماً عَلیٰ مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ وَ دِينِ مُحَمَّدٍ (ص) وَ وِلَایَۃِ أَمِیۡرِ الۡمُؤمِنِیۡنَ عَلِیِ بۡنِ أبِی طَالِبٍ (ع) وَ مَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِنَّ صَلَوٰ تِي وَ نُسُكِي وَ مَحْيَايَ وَ مَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَ بِذَلِكَ أُمِرْتُ وَ أَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيۡمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ، بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيۡمِ"([2]) (اس کے بعد سورہ حمد پڑھے)
اوریہی چیز مختصر تفاوت کے ساتھ دیگر کئی ایک کتب میں موجود ہے۔
شیخ صدوق کی کتاب من لا یحضرہ الفقیہ جو کہ کتب اربعہ سے ہے اس میں بھی توجہ میں، علی علیہ السلام کا نام موجود ہے نیز شیخ الطائفہ شیخ طوسی کی کتاب مصباح المتھجد ص ۴۵ میں بھی من لایحضرۃ الفقیہ والی عبارت نقل ہوئی ہے۔
قاضی عبد العزیز بن براج جو کہ ۴۸۱ ھ کے متوفی ہیں انہوں نے بھی توجہ میں منہاج علی بن أبی طالب کے الفاظ کو ذکر کیا ہے۔ ([3])
حدیث کی معتبر کتاب وسائل الشیعہ([4]) میں منہاج علی بن أبی طالب و ہدی أمیر المومنین (ع) کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔
سوال: جس توجہ کا ذکر، کتب حدیث و کتب فتاویٰ میں آیاہے یہ دعا ہے یا ذکر؟
اگر جواب میں کہیں کہ یہ دعا ہے تو پھر سوال یہ ہے اس دعا میں تو نمازی صرف اپنے عقیدہ اوربندگی کا اظہار کر رہا ہے خداسے کوئی چیز نہیں مانگ رہا۔ اوراگر کہیں کہ یہ ذکر ہے تو پھر اس ذکر میں ولایت علی علیہ السلام کااقرار بھی کیا جا رہا ہے۔ جب پہلی رکعت میں ولایت کا اقرارکرنا مستحب اور باعث ثواب ہے تو پھر دوسری رکعت میں دلیل کےباوجود ذکر ولایت مبطل نماز کیسے ہوگیا؟
مخفی نہ رہے کہ توجہ جس کے پڑھنے کا حکم دیاگیا ہے ہمارےنزدیک یہ دعا کا مصداق بھی ہے اورذکر میں بھی شامل ہے۔
دعا کا اطلاق دو طرح پر ہوسکتا ہے ۔ دعا بمعنی خاص اور وہ یہ ہے کہ اَللَّہُمَّ کہہ کر خداسے کوئی چیز مانگی جائے عام طور پر لوگ اسی کو دعا سمجھتے ہیں۔
اوردعا بمعنی عام بھی ہوتی ہے اس میں ضروری نہیں ہے کہ کوئی چیز مانگی جائے جیسا کہ بعض روایات میں کلمہ، اَلۡحَمۡدُ لِلہِ سب حمدیں خداکے لیے ہیں، کو بھی دعا کہا گیا ہے۔ ([5])
حالانکہ یہ جملہ حمدیہ ہے اس میں کوئی چیز خداسے نہیں مانگی گئی لیکن اس کے باوجود اسے دعا کہا گیا ہے اس بناء پر توجہ جس کے پڑھنے کا حکم دیاگیا ہے یہ دعا بھی ہے اورذکر بھی ہے۔ اس دعا اورذکر میں نصّاً و فتویًٰ، ولایت علی علیہ السلام کےاقرار کرنے کا حکم آیاہے۔ اگر اس نکتے کو سمجھ لیا جائے تو تشہد کا مسئلہ خود بخود حلّ ہوجائے گا۔