بسم اللہ الرحمن الرحیم
مقدمہ :عقیدہ مہدویت کے مسلم الثبوت ہونے پر صدر اسلام کے مسلمانوں میں اجماع واضح اور بلا شبہ ہے اجماع مسلمین سے مرادصرف اجماع شیعہ نہیں ہے کیونکہ یہ واضحات میں سے ہے اورسب جانتے ہیں کہ عقیدہ وجو دوظہور امام مہدی(عج) اصول وضروریات مذہب شیعہ اثنا عشری میں سے ہے جس میں کوئی بحث کی گنجائش نہیں ۔
بلکہ اجماع مسلمین سے مراد اجماع شیعہ و اہل سنت ہے رسول اللہ کی وفات کے بعد صحابہ و تابعین کے درمیان عقیدہ مہدی(عج)مسلم تھا اورظہور حضرت امام مہدی (عج)کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں تھا، اسی طرح قرن اول کے بعد سے لے کر چودہوں صدی ہجری تک آپ کے ظہور کے سلسلے میں بھی تمام مسلمانوں کے درمیان اتفاق تھا ، اوراگر کوئی ان احایث کی صحت اوران کے رسول خدا سے صادر ہونے کے بارے میں شک یاتردد کرتے تو اس شخص کی ناواقفیت پر حمل کرتے تھے ، یہی وجہ ہے آج تک تاریخ اسلام میں جھوٹے اور جعلی مہدیوں کی رد میں کسی نے یہ نہیں کہا کہ یہ عقیدہ باطل ہے ۔اس عالمی انقلاب كی كچھ علامتیں بھی ہیں كہ اتناعظیم انقلاب كب برپا ہوگا۔؟ ہم اس عظیم انقلاب سے نزدیك ہو رہے ہیں یا نہیں۔؟ اس عظیم انقلاب كو اور قریب كیا جاسكتا ہے؟ اگر یہ ممكن ہے تو اس كے اسباب و وسائل كیا ہیں۔تمام سوالوں كے جواب مثبت ہیں۔ دنیا میں كوئی بھی طوفان ایكا ایكی نہیں آتا ہے۔ سماج میں انقلاب رونما ہونے سے پہلے اس كی علامتیں ظا ہر ہونے لگتی ہیں۔پس ہم بھی اس مقالہ میں ظہور امام زمان عج سے کی علامات کا ذکر کرتے ہیں
اسلامی روایات میں اس عظیم انقلاب كی نشانیوں كا تذكرہ ملتا ہے۔ یہ نشانیاں اور علامتیں دو طرح كی ہیں:
1:عمومی علامتیں جو ہر انقلاب سے پہلے (انقلاب كے تناسب سے) ظا ہر ہوتی ہیں۔
2:جزئیات جن كو معمولی و اطلاع كی بنیاد پر نہیں پركھا جاسكتا ہے بلكہ ان جزئیات كی حیثیت ایك طرح كی اعجازی ہے۔
ذیل كی سطروں میں دونوں قسم كی علامتوں كا ذكر كیا جاتا ہے۔
ظلم و فساد كا رواج
سب سے پہلی وہ علامت جو عظیم انقلاب كی آمد كی خبر دیتی ہے۔ وہ ظلم و فساد كا رواج ہے۔ جس وقت ہر طرف ظلم پ ہیل جائے، ہر چیز كو فساد اپنی لپیٹ میں لے لے۔ دوسروں كے حقوق پامال ہونے لگیں، سماج برائیوں كا گڑھ بن جائے اس وقت عظیم انقلاب كی آھٹ محسوس ہونے لگتی ہے۔ یہ طے شدہ بات ہے كہ جب دباؤ حد سے بڑھ جائے گا تو د ہماكہ ضرور ہوگا یہی صورت سماج كی ب ہی ہے جب سماج پر ظلم و فساد كا دباؤ حد سے بڑھ جائے گا تو اس كے نتیجہ میں ایك انقلاب ضرور رونما ہوگا۔اس عظیم عالمی انقلاب اور حضرت مھدی (عج) كے ظہور كے بارے میں ب ہی بات كچھ اسی طرح كی ہے۔منفی انداز فكر والوں كی طرح یہ نہیں سوچنا چا ہیے كہ ظلم و فساد كو زیادہ سے زیادہ ہوا دی جائے تاكہ جلد از جلد انقلاب آجائے بلكہ فساد اور ظلم كی عمومیت كو دیكھتے ہوئے اپنی اور دوسروں كی اصلاح كی فكر كرنا چا ہیے، تاكہ صالح افراد كی ایك ایسی جماعت تیار ہوسكے جو انقلاب كی علمبردار بن سكے۔ اسلامی روایات میں اس پہلی علامت كو ان الفاظ میں بیان كیا گیا ہے:۔كما ملئت ظلما وجوراً …" جس طرح زمین ظلم و جور سے ب ہر چكی ہوگی یہاں ایك سوال یہ اٹھتا ہے كہ "ظلم و جور" مترادف الفاظ ہیں یا معانی كے اعتبار سے مختلف۔دوسروں كے حقوق پر تجاوز دو طرح ہوتا ہے۔ایك یہ كہ انسان دوسروں كے حقوق چ ہین لے اور ان كی محنت سے خود استفادہ كرے اس كو "ظلم" كہتے ہیں۔دوسرے یہ كہ دوسروں كے حقوق چ ہین كر اوروں كو دے دے، اپنے اقتدار كے استحكام كے لئے اپنے دوستوں كو عوام كےجان و مال پر مسلط كردے اس كو "جور" كہتے ہیں۔ان الفاظ كے مد مقابل جو الفاظ ہیں وہ ہیں ظلم كے مقابل "قسط" اور جور كے مقابل "عدل" ہے۔اب تك بات عمومی سطح پر ہو رہی ت ہی كہ ہر انقلاب سے پہلے مظالم كا وجود انقلاب كی آمد كی خبر دیتا ہے۔ قابل غور بات تو یہ ہے كہ اسلامی روایات نے سماجی برائیوں كی جزئیات كی نشاند ہی كی ہے۔ یہ باتیں اگر چہ 13۔ 14 سو سال پہلے كہی گئی ہیں لیكن ان كا تعلق اس زمانے سے نہیں ہے بلكہ آج كل ہماری دنیا سے ہے۔ یہ جزئیات كچھ اس طرح بیان كیے گئے ہیں گویا بیان كرنے والا اپنی آنكھوں سے دیكھ رہاہو، اور بیان كررھا ہو۔ یہ پیشین گوئیاں كسی معجزے سے كم نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں ہم متعدد روایتوں میں سے صرف ایك روایت كو ذكر كرتے ہیں۔ یہ روایت حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے۔ اس روایت میں سیاسی، سماجی اور اخلاقی مفاسد كا ذكر كیا گیا ہے۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے بعض اصحاب سے ارشاد فرمایا ہے:
1۔ جس وقت تم یہ دیکھو كہ ہر طرف ظلم و ستم پ ہیل رہاہے۔
2۔ جس وقت تم یہ دیکھو كہ قرآن فرسودہ كردیا گیا ہے اور دین میں بدعتیں رائج كردی گئی ہیں۔
3۔ جس وقت تم یہ دیکھو كہ دین خدا اس طرح اپنے مفا ہیم سے خالی ہوگیا ہے جس طرح برتن الٹ دیا گیا ہو۔
4۔ جس وقت تم یہ دیکھو كہ اھل باطل صاحبانِ حق پر مسلط ہوگئے ہیں۔
5۔ جس وقت تم یہ دیکھو كہ مرد مرد پر اور عورتیں عورتوں پر اكتفا كر رہی ہیں۔
6۔ جس وقت تم یہ دیکھو كہ صاحبانِ ایمان سے خاموشی اختیار كرلی ہے۔
7۔ جس وقت تم یہ دیکھو كہ چہوٹے بڑوں كا احترام نہیں كر رہے ہیں۔
8۔ جس وقت تم یہ دیکھو كہ رشتہ داریاں ٹوٹ گئی ہیں۔
9۔ جس وقت تم یہ دیکھو كہ چاپلوسی كا بازار گرم ہے۔
10۔ جس وقت تم یہ دیکھو كہ شراب اعلانیہ پی جا رہی ہے۔
11۔ جس وقت تم یہ دیکھو كہ خیر كے راستے اُجاڑ اور شر كی راہیں آباد ہیں۔
12۔ جس وقت تم یہ دیکھو كہ حلال كو حرام اور حرام كو حلال كیا جارھا ہے۔
13۔ جس وقت تم یہ دیکھو كہ احكامِ دین كی حسبِ منشا تفسیر كی جا رہی ہے۔
14۔ جس وقت تم یہ دیکھو كہ صاحبان ایمان ہے آزادی اس طرح سلب كرلی گئی ہے كہ وہ اپنے دل كے علاوہ كسی اور سے اظھار نفرت نہیں كرسكتے۔
15 جس وقت تم یہ دیکھو كہ سرمایہ كا بیشتر حصّہ گناہ میں صرف ہورھا ہے۔
16۔ جس وقت تم یہ دیکھو كہ حكومتی ملازمین كے درمیان رشوت عام ہوگئی ہے۔
17۔ جس وقت تم یہ دیکھو كہ حساس و ا ہم منصبوں پر نااھل قبضہ جمائے ہیں۔
18۔ جس وقت تم یہ دیکھو كہ (بعض مرد) اپنی عورتوں كی ناجائز كمائی پر زندگی بسر كر رہے ہیں۔
19۔ جس وقت تم یہ دیکھو كہ قمار آزاد ہوگیا ہے (قانونی ہوگیا ہے)
20۔ جس وقت تم یہ دیکھو كہ ناروا تفریحیں اتنی عام ہوگئی ہیں كہ كوئی روكنے كی ہمت نہیں كر رہاہے۔
21۔ جس وقت تم یہ دیکھو كہ قرآنی حقائق كا سننا لوگوں پر گراں گذرتا ہے۔
22۔ جس وقت تم یہ دیکھو كہ پڑوسی پڑوسی كی زبان كے ڈر سے اس كا احترام كر رہاہے۔
23۔ جس وقت تم یہ دیکھو كہ مسجدوں كی آرائش كی جا رہی ہے۔
24۔ جس وقت تم یہ دیکھو كہ غیر خدا كے لئے حج كیا جارہا ہے
25۔ جس وقت تم یہ دیکھو كہ عوام سنگ دل ہوگئے ہیں۔
26۔ جس وقت تم یہ دیکھو كہ عوام اس كے حامی ہوں جو غالب آجائے (خواہ حق پر ہو خواہ باطل پر
27۔ جس وقت تم یہ دیکھو كہ حلال كے متلاشی افراد كی مذمّت كی جائے اور حرام كی جستجو كرنے والوں كی مدح۔
28۔ جس وقت تم یہ دیکھو كہ لہو و لعب كے آلات مكّہ مدینہ میں (ب ہی رائج ہوں۔
29۔ جس وقت تم یہ دیکھو كہ مسجد ان لوگوں سے ب ہری ہے جو خدا سے نہیں ڈرتے۔
30۔ جس وقت تم یہ دیکھو كہ لوگوں كی ساری توجہ پیٹ اور شرمگاہ پر مركوز ہے۔
31۔ جس وقت تم یہ دیکھو كہ مادی اور دنیاوی وسائل كی فراوانی ہے، دنیا كا رخ عوام كی طرف ہے۔
32۔ جس وقت تم یہ دیکھو كہ اگر كوئی امر بمعروف اور نہی از منكر كرے تو لوگ اس سے یہ كہیں كہ یہ تمھاری ذمہ داری نہیں ہے۔
33۔ جس وقت تم یہ دیکھو كہ عورتیں اپنے آپ كو بے دینوں كے حوالے كر رہی ہیں۔
34۔ جس وقت تم یہ دیکھو كہ حق پرستی كے پرچم فرسودہ ہوگئے ہیں۔
35۔ جس وقت تم یہ دیکھو كہ بربادی آبادی پر سبقت لے جا رہی ہے۔
36۔ جس وقت تم یہ دیکھو كہ بعض كی روزی صرف كم فروشی پر منحصر ہے۔
37۔ جس وقت تم یہ دیکھو كہ ایسے افراد موجود ہیں جنہوں نے مال كی فراوانی كے باوجود اپنی زندگی میں ایك مرتبہ بھی زكات نہیں دی ہے۔
38۔ جس وقت تم یہ دیکھو كہ لوگ صبح و شام نشہ میں چور ہیں۔
39۔ جس وقت تم یہ دیکھو كہ لوگ ایك دوسرے كو دیكھتے ہیں اور بروں كی تقلید كرتے ہیں۔
40۔ جس وقت تم یہ دیکھو كہ ہر سال نیا فساد اور نئی بدعت ایجاد ہوتی ہے۔
41۔ جس وقت تم یہ دیکھو كہ عوام اپنے اجتماعات میں خود پسند سرمایہ داروں كے پیروكار ہیں۔
42۔ جس وقت تم یہ دیکھو كہ جانوروں كی طرح سب كے سامنے جنسی افعال انجام دے رہے ہیں
43۔ جس وقت تم یہ دیکھو كہ غیر خدا كے سلسلے میں زیادہ سے زیادہ خرچ كرنے میں كوئی تكلف نہیں كرتے لیكن خدا كی راہ میں معمولی رقم ب ہی صرف نہیں كرتے۔
44۔ جس وقت تم یہ دیکھو كہ ایسے افراد ب ہی ہیں كہ جس دن گناہ كبیرہ انجام نہ دیں اس دن غمگیں رھتے ہیں۔
45۔ جس وقت تم یہ دیکھو كہ حكومت عورتوں كے ھاتہوں میں چل گئی ہے۔
46۔ جس وقت تم یہ دیکھو كہ ہوائیں منافقوں كے حق میں چل رہی ہیں، ایمان داروں كو اس سے كچھ حاصل نہیں ہے۔
47۔ جس وقت تم یہ دیکھو كہ قاضی احكامِ الٰہی كے خلافِ فیصلہ دے رہاہے۔
48۔ جس وقت تم یہ دیکھو كہ بندوں كو تقویٰ كی دعوت دی جا رہی ہے مگر دعوت دینے والا خود اس پر عمل نہیں كر رہاہے۔
49۔ جس وقت تم یہ دیکھو كہ لوگ اوقات نماز كو ا ہمیت نہیں دے رہے ہیں۔
50۔ جس وقت تم یہ دیکھو كہ ضرورت مندوں كی امداد ب ہی پارٹی كی بنیاد پر كی جا رہی ہے، كوئی خدائی عنصر نہیں ہے۔
ایسے زمانے میں اپنے آپ كی حفاظت كرو، خدا سے نجات طلب كرو كہ تمہیں مفاسد سے محفوظ ركہے (انقلاب نزدیك ہے)۔
اس طولانی حدیث میں (جس كو ہم نے بطور اختصار پیش كیا ہے) جو برائیاں اور مفاسد بیان كئے گئے ہیں انہیں تین حصوں میں تقسیم كیا جاسكتا ہے۔
1:وہ برائیاں اور مفاسد جو دوسروں كے حقوق اور حكومتوں سے متعلق ہیں جیسے باطل كے طرفداروں كی كامیابی، زبان و عمل پر پابندیاں، وہ ب ہی اتنی سخت پابندیاں كہ صاحبانِ ایمان كسی سے اظھار رائے نہ كرسكیں بربادی كے سلسلے میں سرمایہ گذاری، رشوت كی گرم بازاری، اعلیٰ اور حساس منصبوں كی نیلامی، جاھل عوام كی طرف سے صاحبانِ اقتدار كی حمایت۔
جنگ كا میدان گرم ركھنے كے لئے سرمایہ كی افراط، تباہ كن اسلحوں كی دوڑ (آج وہ رقم جو اسلحوں پر صرف ہو رہی ہے وہ اس رقم سے كہیں زیادہ ہے جو تعمیری اور فلاح و بہبود كے كاموں پر صرف ہوتی ہے)۔
برائیوں كے اس ھجوم میں كسی كو اپنی ذمہ داری كا احساس تو در كنار، ایك دوسرے كو یہ نصیحت كی جا رہی ہے كہ ایسے ماحول میں بے طرف رھنا چاھئے۔
2:اخلاقی برائیاں، جیسے چاپلوسی، تنگ نظری، حسد، ذلیل كاموں كے لئے آمادگی۔ (جیسے مرد اپنی زوجہ كی ناجائز كمائی سے زندگی بسر كرے)۔ شراب و قمار كی عمومیت غیر اخلاقی تفریحیں، اعمال پر تقریریں اور بے عمل مقررین، ریا كاری، ظا ہر داری ہر چیز میں پارٹی بازی، شخصیت كا معیار دولت كی فراوانی…
3:وہ برائیاں جن كا تعلق مذھب سے ہے، جیسے خواھشات كو قرآنی احكام پر ترجیح دینا، اسلامی احكام كی حسب منشاء تفسیر، مذھبی معاملات كو مادی اور دنیاوی معیاروں پر پركھنا، مسجدوں میں گناہگاروں كی اكثریت، مسجدوں كی آرائش، تقویٰ ا ور پرہیزگاری سے دوری، نماز كو ا ہمیت نہ دینا۔اگر غور كیا جائے اور منصفانہ نگاہ سے دیكھا جائے تو آج كے سماج میں یہ ساری برائیاں نظر آئیں گی۔یہ تمام برائیاں انقلاب كی پہلی اور آخری شرط نہیں ہیں بلكہ ظلم و جور كی فراوانی انقلاب كے لئے زمین ہموار كر رہی ہے۔ یہ برائیاں مست اور خوابیدہ انسانوں كو بیدار كرنے كا ایك ذریعہ ہیں۔ سوئے ہوئے ضمیر كے حق میں تازیانہ ہیں تاكہ لوگ بیدار ہوں اور انقلاب كے لئے آمادہ ہوجائیں۔
دنیا والے ایك نہ ایك دن ضرور ان برائیوں كے علل و اسباب تلاش كریں گے اور اس كے نتائج پر غور كریں گے یہ تلاش عمومی سطح پر آگا ہی فرا ہم كرے گی جس كے بعد ہر ایك كو اس بات كا یقین ہوجائے گا كہ اصلاح كے لئے انقلاب ضروری ہے۔ عالمی اصلاح كے لئے عالمی انقلاب دركار ہے۔ یہ بات قابل توجہ ہے كہ اگر دنیا كا كوئی گوشہ ان برائیوں سے پاك صاف ہے، یا بعض افراد ان مفاسد میں ملوث نہیں ہیں تو اس سے كوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔ كیونكہ جو بات بیان كی گئی ہے وہ عمومی سطح پر اور اكثریت كو پیش نظر ركھتے ہوئے بیان كی گئی ہے۔
خاص علامتیں
1:دجّال
جب كب ہی دجال كا تذكرہ ہوتا ہے، ذھن پُرانے تصورات كی بنا پر فوراً ایك خاص شخص كی طرف متوجہ ہوجاتا ہے جس كے صرف ایك آنكھ ہے جس كا جسم ب ہی افسانوی ہے اور سواری ب ہی۔ جو حضرت مھدی (عج) كے عالمی انقلاب سے پہلے ظاہر ہوگا۔
لغت میں دجال کے معنی :دروغ گوئی اور دہوكہ بازی ۔
اور احادیث سے یہ استفادہ ہوتا ہے كہ دجال كسی خاص فرد سے مخصوص نہیں ہے۔ بلكہ یہ ایك عنوان ہے جو ہر دہوكہ باز اور حیلہ گر… پر منطبق ہوتا ہے۔ اور ہر اس شخص پر منطبق ہوتا ہے جو عالمی انقلاب كی راہ میں ركاوٹیں ایجاد كرتا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كی ایك مشہور حدیث ہے:انہ لہ یكن نبی بعد نوح الا انذر قومہ الدجال وانی انذر كموہ۔
"جناب نوح (ع) كے بعد ہر نبی نے اپنی قوم كو دجال كے فتنہ سے ڈرایا ہے میں ب ہی تمہیں اس سے ہوشیار كرتا ہوں۔"
یہ بات مسلم ہے كہ انبیاء علیہم السلام اپنی قوم كو كسی ایسے فتنے سے نہیں ڈراتے تہے جو ھزاروں سال بعد آخری زمانہ میں رونما ہونے والا ہو۔
اسی حدیث كا یہ آخری جملہ خاص توجہ كا طالب ہے كہ:فوصفہ لنا رسول اللہ فقال لعلہ سیدركہ بعض من رأنی او سمع كلامی۔
رسول خدا (ص) نے ہمارے لئے اس كے صفات بیان فرمائے اور فرمایا كہ ہوسكتا ہے وہ لوگ اس سے دوچار ہوں جنہوں نے مجھے دیكھا ہے یا میری بات سنی ہے۔
اس بات كا قوی احتمال ہے كہ حدیث كا یہ آخری جملہ ان فریب كاروں، سركشوں، حیلہ گروں، مكّاروں … كی نشاند ہی كر رہاہو جو آنحضرت (ص)كے بعد بڑے بڑے عنوان كے ساتھ ظا ہر ہوئے۔ جیسے بنی امیہ اور ان كے سركردہ معاویہ، جہاں "خال المومنین" اور "كاتب وحی" جیسے مقدس عناوین لگے ہوئے ہیں ان لوگوں نے عوام كو صراط مستقیم سے منحرف اور ان كو جاھلی رسومات كی طرف واپس لانے میں كوئی كسر اُٹھا نہیں رك ہی، متقی اور ایمان دار افراد كو كنارے كردیا، اور عوام پر بدكاروں، جاھلوں اور جابروں كو مسلط كردیا۔صحیح ترمذی كی ایك روایت یہ ب ہی ہے كہ آنحضرت (ص) نے دجال كے بارے میں ارشاد فرمایا كہ:ما من نبی الا وقد انذر قومہ ولٰكن ساقول فیہ قولا لم یقلہ نبی لقومہ تعلمون انہ اعور۔ ہر نبی نے اپنی قوم كو دجال كے فتنہ سے ڈرایا ہے، لیكن اس كے بارے میں، میں ایك ایسی بات كہہ رہاہوں جو كسی نبی نے اپنی قوم سے نہیں كہا، اور وہ یہ كہ وہ كانا ہے۔"بعض حدیثوں میں ملتا ہے كہ حضرت مھدی (عج)كے ظہور سے پہلے تیس دجال رونما ہوں گے۔انجیل میں ب ہی دجّال كے بارے میں ملتا ہے كہ:تم كو معلوم ہے كہ دجال آنے والا ہے۔ آج كل ب ہی كافی دجال ظا ہر ہوتے ہیں۔ اس عبارت سے صاف ظا ہر ہے كہ دجال متعدد ہیں۔ایك دوسری حدیث میں آنحضرت نے ارشاد فرمایا كہ:لا تقوم الساعۃ حتی یخرج نحوستین كذا بكل ہم یقولون انا نبی۔قیامت اس وقت تك نہیں آئے گی جب تك ساٹھ (60) جھوٹے پیدا نہ ہوجائیں جن میں سے ہر ایك اپنے پیغمبر بتائے گا۔ اس روایت میں گرچہ دجال كا لفظ نہیں ہے لیكن اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے كہ آخری زمانہ میں جھوٹے دعوے داروں كی تعداد ایك دو پر منحصر نہیں ہوگی۔یہ ایك حقیقت ہے ك جب ب ہی كسی معاشرے میں انقلاب كے لئے زمین ہموار ہوتی ہے تو غلط افوا ہیں پ ہیلانے والوں، فریب كاروں، حیلہ گروں اور جھوٹے دعوے داروں كی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ یہی لوگ ظالم اور فاسد نظام كے محافظ ہوتے ہیں ان كی كوشش یہ ہوتی ہے كہ عوام كے جذبات، احساسات اور ان كے افكار سے غلط فائدہ اٹھایا جائے۔یہ لوگ انقلاب كو بدنام كرنے كے لئے خود ب ہی بظا ہر انقلابی بن جاتے ہیں اور انقلابی نعرے لگانے لگتے ہیں ایسے ہی لوگ انقلاب كی راہ میں سب سے بڑی ركاوٹ ہیں۔یہ وہ دجال ہیں جن سے ہوشیار رہنے كے بارے میں ہر نبی نے اپنی امت سے نصیحت كی ہے۔حضرت مھدی (عج) كا انقلاب صحیح معنوں میں عالمی انقلاب ہوگا۔ اس عالمی انقلاب كے لیے عوام میں جس قدر آمادگی بڑھتی جائے گی جتنا وہ فكری طور س آمادہ ہوتے جائیں گے ویسے ویس دجّالوں كی سرگرمیاں ب ہی تیز ہوتی جائیں گی ۔۔۔۔۔۔۔۔ تاكہ انقلاب كی راہ میں روڑے اٹكا سكیں۔ہوسكتا ہے كہ ان تمام دجالوں كی سربرا ہی ایك بڑے دجّال كے ھاتہوں میں ہو، اور اس دجال كی جو صفات بیان كی گئی ہیں وہ علامتی صفات ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ علامہ مجلسی (رح) نے بحار الانوار میں ایك روایت امیر المومنین علیہ السلام سے نقل فرمائی ہے جس میں دجال كی صفات كا ذكر ہے وہ صفات یہ ہیں:
1: اس كے صرف ایك آنكھ ہے، یہ آنكھ پیشانی پر ستارۂ صبح كی طرح چمك رہی ہے۔ یہ آنكھ اس قدر خون آلود ہے گویا خون ہی سے بنی ہے۔
2: اس كا خچر (سواری) سفید اور تیزرو ہے، اس كا ایك قدم ایك میل كے برابر ہے۔ وہ بہت تیز رفتاری سے زمین كا سفر طے كرے گا۔
3: وہ خدائی كا دعویٰ كرے گا۔ جس وقت اپنے دوستوں كو آواز دے گا تو ساری دنیا میں اس كی آواز سنی جائے گی۔
4: وہ دریاؤں میں ڈوب جائے گا۔ وہ سورج كے ساتھ سفر كرے گا، اس كے سامنے دھنویں كا پہاڑ ہوگا اور اس كی پشت پر سفید پہاڑ ہوگا۔ لوگ اسے غذائیں مواد تصور كریں گے۔
5:وہ جس وقت ظا ہر ہوگا اس وقت لوگ قحط میں اور غذائی مواد كی قلت میں مبتلا ہوں گے۔
یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے كہ ہمیں یہ حق حاصل نہیں ہے كہ ہم قرآن اور احادیث میں بیان شدہ مطالب كو "علامتی عنوان" قرار دیں كیونكہ یہ كام ایك طرح كی تفسیر بالرائے ہے جس كی شدّت سے مخالفت كی گئی ہے۔ لیكن یہ ب ہی صحیح نہیں ہے كہ عقلی اور نقلی قرینوں كی موجودگی میں لفظ كے ظا ہری مفہوم سے چپكے رہیں۔
آخری زمانے كے بارے میں جو روایتیں وارد ہوئی ہیں ان میں "علامتی عنوان" بكثرت موجود ہیں۔مثلا ایك روایت میں ہے كہ اس وقت مغرب سے آفتاب آئے گا۔ اگر اس حدیث كے ظا ہری معنی مراد لئے جائیں تو اس كی دو صورتیں ہیں۔ ایك یہ كہ آفتاب ایكا ایكی مغرب سے طلوع كرے تو اس صورت میں منظومہ شمسی كی حركت بالكل معكوس ہوجائے گی جس كے نتیجہ میں نظام كائنات در ہم بر ہم ہوجائے گا۔ دوسرے یہ كہ آفتاب رفتہ رفتہ مغرب سے طلوع كرے۔ تو اس صورت میں رات دن اس قدت طولانی ہوجائیں گے جس سے نظام زندگی میں در ہمی پیدا ہوجائے گی واضح رہے كہ یہ دونوں ہی معنی حدیث سے مراد نہیں ہیں۔ كیونكہ نظام در ہم بر ہم ہونے كا تعلق سے ہے آخری زمانے سے نہیں، جیسا كہ صعصعہ بن صوحان كی روایت كے آخری فقرے سے استفادہ ہوتا ہے كہ یہ حدیث ایك علامتی عنوان ہے امام زمانہ كے بارے میں۔
نزال بن سیدہ جو اس حدیث كے راوی ہیں، انہوں نے صعصعہ بن صوحان سے دریافت كیا كہ امیر المومنین علیہ السلام نے دجال كے بارے میں بیان كرنے كے بعد یہ كیوں ارشاد فرمایا كہ مجھ سے ان واقعات كے بارے میں نہ دریافت كرو جو اس كے بعد رونما ہوں گے۔"صعصعہ بن صوحان نے فرمایا:۔جس كے پیچھے جناب عیسیٰ (ع) نماز ادا كریں گے وہ اھل بیت علیہم السلام كی بارہویں فرد ہوگا اور امام حسین علیہ السلام كی صلب میں نواں ہوگا۔ یہ وہ آفتاب ہے جو اپنے كو مغرب سے طلوع كرے گا۔
لہٰذا یہ بات بہت ممكن ہے كہ دجال كی صفات "علامتی عنوان" كی حیثیت ركھتی ہوں جن كا تعلق كسی خاص فرد سے نہ ہو بلكہ ہر وہ شخص دجال ہوسكتا ہے جو ان صفات كا حامل ہو یہ صفات مادی دنیا كے سر براہوں كی طرف ب ہی اشارہ كر رہی ہیں، كیونكہ:
1:ان لوگوں كی صرف ایك آنكھ ہے، اور وہ ہے مادی و اقتصادی آنكھ ۔ یہ لوگ دنیا كے تمام مسائل كو صرف اسی نگاہ سے دیكھتے ہیں۔ مادی مقاصد كے حصول كی خاطر جائز و ناجائز كے فرق كو یكسر بہول جاتے ہیں۔ان كی یہی مادی آنكھ بہت زیادہ چمكدار ہے، كیونكہ ان لوگوں نے صنعتی میدان میں چشم گیر ترقی كی ہے۔ زمین كی حدوں سے با ہر نكل گئے ہیں۔
2: تیز رفتار سواریاں ان كے اختیار میں ہیں۔ مختصر سی مدّت میں ساری دنیا كا چكّر لگا لیتے ہیں۔
3:یہ لوگ خدائی كے دعوے دار ہیں۔ كمزور اور غیر ترقی یافتہ ممالك كی قسمت سے ك ہیلنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔
4: جدید ترین آبدوزوں كے ذریعہ سمندر كی تہوں میں سورج كے ساتھ سفر كرتے ہیں، ان كی نگاہوں كے سامنے دیو پیكر كارخانے، دہویں كا پہاڑ، اور ان كے پیچھے غذائی مواد كا انبار سفید پہاڑ، (جس كی عوام غذائی اشیاء تصور كرتے ہیں، جب كہ وہ صرف پیٹ ب ہراؤ چیزیں ہیں، ان میں غذائیت نہیں ہے)۔
5:قحط، خشك سالی، استعماریت، جنگ كے لئے سرمایہ گذاری، اسلحہ كے كمرشكن مصارف قتل و غارت گری … ان چیزوں كی بنا پر غذائی اشیاء میں شدید قلت پیدا ہوجاتی ہے جس كی وجہ سے بعض لوگ بھكمری كا شكار ہوجاتے ہیں۔
یہ حالات دجال كے منصوبہ بند پروگرام كا نتیجہ ہیں جس سے وہ حسب منشاء استفادہ اٹھاتا ہے۔ كمزوروں، غریبوں اور زحمت كشوں كی امداد كے بہانے اپنے اقتدار كو استحكام عطا كرتا ہے۔بعض روایتوں میں ہے ك دجّال كی سواری كے ہر بال سے مخصوص قسم كا ساز سنائی دے گا یہ روایت آج كل كی دنیا پر كس قدر منطبق ہو رہی ہے كہ دنیا كے گوشہ گوشہ میں موسیقی كا جال بچھا ہوا ہے كوئی گ ہر سازو آواز سے خالی نہیں ہے۔خواہ دجال ایك مخصوص شخص كا نام ہو، خواہ دجال كی صفات "علامتی عنوان" كی حیثیت ركھتی ہوں، بہر حال عالمی انقلاب كے منتظر افراد، اور حضرت مھدی عج كے جانبازوں كی ذمہ داری ہے كہ وہ دجال صفت افراد سے مرعوب نہ ہوں اور ان كے دام فریب میں گرفتار ہوں۔ انقلاب كے لئے زمین ہموار كرنے كے لئے ہر ممكن كوشش كرتے رہیں، اور كسی وقت ب ہی ناكامی اور سستی كے احساس كو اپنے قریب نہ آنے دیں۔
2: سفیانی كا ظہور
دجال كی طرح سفیانی كا ب ہی تذكرہ شیعہ اور سنّی روایات میں ملتا ہے۔ عالمی انقلاب كے نزدیك زمانے میں سفیانی كا ظہور ہوگا۔
بعض روایتوں سے پتہ چلتا ہے كہ سفیانی ایك معین شخص كا نام ہے جو ابوسفیان كی نسل سے ہوگا۔ لیكن بعض دوسری روایتوں سے استفادہ ہوتا ہے كہ سفیانی صرف ایك فرد كا نام نہیں ہے بلكہ یہ نام ان تمام افراد كو شامل ہے، جن میں سفیانی صفات پائی جاتی ہیں۔حضرت امام زین العابدین علیہ السلام كی ایك روایت ہے جس سے یہ استفادہ ہوتا ہے كہ سفیانی شخص سے زیادہ صفات كا نام ہے۔ سفیانی ب ہی ایك علامتی عنوان ہے كہ ہر مصلح كے مقابلے میں كوئی نہ كوئی سفیانی ضرور ظا ہر ہوگا۔وہ روایت یہ ہے:امر السفیانی حتم من اللہ ولا یكون قائم الا بسفیانی۔ سفیانی كا ظہور لازمی اورضروری ہے۔ اور ہر قیام كرنے والے كے مقابلے میں ایك سفیانی موجود ہے۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایك روایت نقل ہوئی ہے، جس كے الفاظ یہ ہیں:انا واٰل ابی سفیان اھل بیتین تعادینا فی اللہ! قلنا صدق اللہ وقالوا كذب اللہ! قاتل ابوسفیان رسول اللہ و قاتل معاویۃ علی ابن ابی طالب و قاتل یزید بن معاویۃ الحسین بن علی والسفیانی یقاتل القائم ۔ ہم اور آل ابوسفیان دو خاندان ہیں جنہوں نے اللہ كی راہ میں ایك دوسرے كی مخالفت كی۔ ہم نے الہی پیغامات كی تصدیق كی اور انہوں نے الٰہی پیغامات كی تكذیب، ابوسفیان نے رسول خدا (ص) سے جنگ كی، معاویہ نے حضرت علی علیہ السلام سے جنگ كی، معاویہ كے بیٹے یزید نے امام حسین علیہ السلام كو قتل كیا اور سفیانی قائم (عج) سے برسر بیكار ہوگا۔"گذشتہ صفحات میں بیان كیا جاچكا ہے كہ تعمیری اقدامات كے مقابلہ میں دجال صفت افراد كس طرح سرگرم رہیں گے، ذیل كی سطروں میں سفیانیوں كی سرگرمیاں ملاحظہ ہوں۔ سفیانیوں كی شاہ فرد اور اس ناپاك سلسلے كی ابتداء كا نام ہے ابوسفیان! جس میں یہ خصوصیات تھیں:۔
1:لوٹ مار، ڈاكہ، قتل، غارت گری… كے ذریعہ سرمایہ دار بنا تھا۔ دوسروں كے حقوق چ ہین چ ہین كر مالدار ہوگیا تھا۔
2:شیطانی حربوں سے قدرت و طاقت حاصل كی ت ہی۔ مكہ اور مضافات كی ریاست اسی كے ھاتہوں میں ت ہی۔
3:جاھلی اور طبقاتی نظام كا مكمل نمونہ تھا۔ وہ جی جان سے بتوں اور بت پرستی كی حمایت كرتا تھا تفرقہ اندازی اس كا بہترین مشغلہ تھا، اور یہی اس كی حكومت كا راز تھا۔
اسلام ان تمام باتوں كا شدت سے مخالف تھا اور ہے۔ اسلام كے آنے كے بعد اس كی ساری شخصیت پر پانی پڑگیا۔ اس كی سرمایہ داری، طاقت اور ریاست سب ختم ہوگئی۔ كیونكہ اسلام نے وہ تمام ذرائع یكسر ختم كردیے جن كے ذریعہ ابوسفیان سرمایہ دار، قدرت مند اور سردار قوم بنا تھا۔ اسی لئے وہ برابر اسلام سے جنگ كرتا رہامگر ہر مرتبہ ھزیمت اٹھاتا رھا۔ اس طرح ابوسفیان كے جیتے جی اس كی شخصیت زندہ درگور ہوگئی فتح مكہ كے بعد ابوسفیان نے بادل ناخواستہ اسلام تو قبول كرلیا، مگر اسلام دشمنی میں كوئی كمی نہیں آئی، اور اسلام دشمنی نسلاً بعد نسل اس كی اولاد میں منتقل ہوتی رہی۔ معاویہ كو ورثہ میں اسلام اور آل محمد (ص) كی دشمنی ملی اور معاویہ نے یزید میں یہ جراثیم منتقل كردیے۔جس وقت حضرت مھدی (عج) كا ظہور ہوگا اس وقت ب ہی ابوسفیان كی نسل كا ایك سفیانی، یا ابوسفیان كی صفات كا ایك مجسمہ ایك سفیانی حضرت كے خلاف صف آراء ہوگا۔ اس كی ب ہرپور كوشش یہ ہوگی كہ انقلاب نہ آنے دے یا كم از كم انقلاب كی راہ میں ركاوٹیں ایجاد كركے انقلاب كو جلدی نہ آنے دے۔
دجّال اور سفیانی دونوں كا مقصد ایك ہی ہے، مگر جو فرق ہوسكتا ہے وہ یہ كہ دجال كی سرگرمیاں پوشیدہ پوشیدہ ہوں گی جبكہ سفیانی كھلے عام مخالف اور جنگ كرے گا۔
بعض روایت كے مطابق سفیانی زمین كے آباد حصوں پر حكمرانی كرے گا۔ جس طرح ابوسفیان معاویہ، یزید … نے حكومتیں كی ہیں۔آخری زمانے كا یہ سفیانی ب ہی اس طرح ھزیمت اُٹھائے گا جس طرح اس كے قبل ابوسفیان اور بقیہ سفیانیوں نے اپنے اپنے زمانے كے مصلح سے ھزیمت اٹھائی ہے۔یہاں پر ہم ایك بار پھر یہ بات گوش گزار كریں گے كہ آخری زمانے كے انتظار كرنے والوں اور حضرت مھدی (عج) كے جانباز سپا ہیوں كی ذمہ داری یہ ہے كہ ہر طرح كے دجالوں اور سفیانیوں سے ہوشیار رہیں خواہ وہ كسی لباس، كسی صورت اور كسی انداز سے كیوں نہ پیش آئیں كیونكہ سفیانیوں كی ہمیشہ یہ كوشش رہی ہے كہ شائستہ افراد، متقی و پرہیزگار اور مصلحین سماجی سرگرمیوں سے بالكل كنارہ كش ہوجائیں، تاكہ یہ لوگ بے روك ٹوك اپنے منصوبوں كو عملی بنا سكیں جس كی مثالیں معاویہ كی حكومت میں بے شمار ہیں۔