ازالہ شبھہ:
بعض آیات میں جو شفاعت کی نفی آئی ہے مثلاً{ فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِينَ}([1])
تو انہیں سفارش کرنے والوں کی سفارش بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گی۔
اس آیت میں اصل شفاعت کی نفی نہیں ہے بلکہ ضمنا شفاعت ثابت ہے کہ سفارش کرنے والوں کی سفارش ان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گی۔
معلوم ہوا شفیع ہیں لیکن ان لوگوں کو جن کا ذکر آیت میں آیا ہے کو شفاعت کا فائدہ نہیں پہنچے گا۔ کیونکہ ان کے چار جرم تھے۔ ایک نماز گزار نہیں تھے، مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے، برے کاموں میں شامل ہوجایا کرتے تھے، قیامت کی تکذیب کرتے تھے۔ {وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّينِ}([2])
روایات کے قطع نظر خود ان آیات میں دقت کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیات کفار کے بارے میں ہیں چونکہ کوئی مسلمان قیامت کا انکار نہیں کرتا چونکہ قیامت اصول دین اور ضروریات دین سے ہے۔
جیسا کہ ذکر کیا جاچکا ہے کہ کفار و مشرکین شفاعت سے محروم ہیں۔ ہاں جو مسلمان نماز کو سبک شمار کرتے ہوئے نماز نہ پڑھے وہ شفاعت ائمہ طاہرین ؑ سے محروم رہے گا۔
{ وَاتَّقُوا يَوْمًا لا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا وَلا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلا هُمْ يُنْصَرُونَ}([3]) اس دن سے ڈرو جس دن کوئی کسی کا بدل نہ بن سکے گا اور کسی کی سفارش قبول نہ ہوگی نہ کوئی معاوضہ لیا جائے گا اور نہ کسی کی مدد کی جائے گی۔
یہ آیت یہودیوں کے مربوط ہے جنہوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا اور حق کے ساتھ عداوت کی اور انبیاء کو قتل کیا، ان کے بارے میں کوئی شفاعت قبول نہیں ہے۔
خلاصہ یہ کہ اصل شفاعت مسلمات سے ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ بنص قرآن حضورؐ تو دنیا میں بھی شفیع ہیں:
{ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا}([4])
کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا تو آپؐ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لیے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے حق میں استغفار کرتا تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ کرنے والا مہربان پاتے۔
اور سورہ منافقون کی آیت نمبر ۵ میں منافقین کی مذمت کی گئی ہے کہ وہ رسول کے پاس کیوں نہیں آتے کہ رسولؐ ان کے لیے استغفار کرتے۔