قیامت کے دن سوالات

اگرچہ قیامت کے دن کئی ایک چیزوں کے متعلق پوچھا جائے گا لیکن بعض روایات میں آیا ہے کہ قیامت کے دن سب سےپہلے محبت اور ولایت کے متعلق سوال ہوگا۔

رسول خداؐ نے ارشاد فرمایا: اول ما یسأل عنہ العبد حبنا اہل البیت؛ سب سے پہلے بندے سے ہماری اہل بیت ؑ کی محبت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔([1])

ابو بصیر کہتے ہیں میں نے امام محمد باقر ؑ سے سنا کہ فرمایا کرتے تھے سب سے پہلے بندے سے نماز کے بارے میں حساب لیا جائے گا اگر نماز قبول ہوگی تو سب اعمال قبول ہوجائیں گے۔([2])

مذکورہ روایتیں آپس میں کوئی منافاۃ نہیں رکھتیں چونکہ پہلی حدیث عقیدہ کے مربوط ہے اور دوسری حدیث عمل کے مربوط ہے۔

نیز مخفی نہ رہے کہ سب اعمال کی قبولیت کی شرط ولایت آل محمد علیہم السلام ہے اور اس کی دلیل یہ آیت ہے:{ ذَلِكَ الَّذِي يُبَشِّرُ اللَّهُ عِبَادَهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ قُلْ لا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى وَمَنْ يَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَزِدْ لَهُ فِيهَا حُسْنًا إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ شَكُورٌ}([3])۔

۔۔۔ آپ کہہ دیجئیے کہ تم میں سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا علاوہ اس کے میرے اقرباء سے محبت کرو اور جو شخص بھی کوئی نیکی حاصل کرے گا ہم اس کی نیکی میں اضافہ کردیں گے بے شک اللہ بہت بخشنے والا اور قدر دان ہے۔

مودت اہل بیت اجر رسالت ہے اور جس نے اہل بیت سے مودت نہ کی اس نے اجر رسالت نہیں دیا لہذا اس کا کوئی عمل قبول نہیں ہے۔ اور آیت میں حسنہ سے مراد بھی ولایت اہل بیت ہے۔ اس نیکی سےمراد عام حسنہ بھی ہو تو اس کا محبت اہل بیت ؑ کے مطالبہ کے بعد آیت میں ذکر ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ محبت اہل بیت ؑ کے بعد جو نیکی بھی کی جاتی ہے خدائے کریم اس میں اضافہ کر دیتا ہے اور محبت اہل بیت ؑ کے بغیر جو نیکی انجام دی جاتی ہے وہ فاقد اعتبار اور قبول نہیں ہے۔

امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ رسول خدا ؐ نے فرمایا: سب سے پہلے بارگاہ الٰہی میں ، میں حاضر ہوں گا پھر کتاب خدا قرآن، پھر میری اہل بیت پھر میری امت۔ یہ کھڑے ہوں گے تو خدا ان سے پوچھے گا کہ میری کتاب کے ساتھ کیا کیا اور اپنے پیغمبر کے اہل بیت ؑ کے ساتھ کیا سلوک کیا۔([4])

امام موسی کاظم علیہ السلام نے اپنے اباء طاہرین ؑ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خداؐ نے فرمایا: کوئی بندہ اپنا قدم نہیں اٹھائے گا مگر یہ کہ اس سے چار چیزوں کے بارے میں سوال ہوگا اپنی زندگی کو کہاں صرف کیا، اپنی جوانی کوکہاں مبتلا کیا، اس کے مال کے بارے میں کہ کیسے کمایا اور کہاں خرچ کیا اور ہماری اہل بیتؑ کی محبت کے بارے میں، پوچھا جائے گا۔([5])

امام محمد باقر ؑ سے بھی اسی مضمون کی روایت مروی ہے اور امالی شیخ میں ہے کہ قوم سے ایک شخص نے کہا: یا رسول اللہؐ آپ کی محبت کی علامت کیا ہے؟ فرمایا: اس کی محبت اور اپنا دست مبارک علی بن ابی طالب ؑ کے سر مبارک پر رکھا([6])۔ اور ابو برزہ کی روایت میں ہے کہ عمر نے کہا کہ آپؐ کے بعد آپؐ سے محبت کی علامت کیا ہے؟ حضور نے اپنا دست مبارک حضرت علی ؑ جو کہ آپ کی جانب تشریف فرما تھے کے سر مبارک پر رکھا اور فرمایا: بے شک میرے بعد میری محبت کی نشانی ان کی محبت ہے۔([7])

ارشاد رب العزت ہے:{ ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ}([8])

پھر تم سے اس دن ضرور بالضرور نعمت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

امام   باقر علیہ السلام فرماتے ہیں نعیم سے مراد ولایت ہے۔([9])

امام صادق ؑ فرماتے ہیں:خدا کریم تر ہے اس سے کہ مومن سے کھانے پینے کے بارے میں سوال کرے۔([10])

{ وَقِفُوهُمْ إِنَّهُمْ مَسْئُولُونَ}([11]) ذرا ان کو ٹھہراؤ کہ ابھی ان سے کچھ سوال کیا جائے گا۔

اور وہ سوال ولایت کے بارے میں ہوگا۔([12])

قیامت کے دن مومنین جنت میں جائیں گے جنت کی نعمات اور آسائشات و لذات کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ اور کفار و مشرکین منافقین اور نواصب جہنم میں جائیں گے اور جہنم میں طرح طرح کے شدید اور دردناک عذاب ہیں اور یہ لوگ جہنم میں ہمیشہ ذلت و خواری اور سختی عذاب میں مبتلا رہیں گے۔

مومنین میں سےجو گناہ گار ہیں ان کےگناہوں کا کفارہ ممکن ہے اسی دنیا میں ہوجائے جیسے بیمار ہونا، یا مقروض ہونے یا ہمسایہ کے آزار و اذیت کی وجہ سے، وغیرہ۔ اگر ان چیزوں سے بھی اس کے گناہ پاک نہ ہوئے تو اس کی موت، کفارہ گناہ بن جائے گی اگر پھر بھی پاک نہ ہوں (مثلاً گناہوں کی زیادتی کی وجہ سے) تو قبر میں عذاب میں مبتلا ہوگا اور قبر سے گناہوں سےپاک ہوکر نکلے گا اگر پھر بھی گناہوں کی زیادتی کی وجہ سے پاک نہ ہوسکا تو محشر کی سختی سے پاک ہوجائے گا اگر پھر بھی گناہوں سے پاک نہ ہوا تو جہنم کے پہلے طبقہ میں رکھا جائے گا جب گناہوں سے پاک ہوجائے گا تو جنت میں چلا جائے گا۔ ممکن ہے کہ لیاقت رکھنے کی وجہ سے معصومین علیہم السلام کی شفاعت سے خدا اس کے گناہ بخش دے اور جنت میں چلا جائے۔

مخفی نہ رہے کہ جو بھی محمد و آل محمدؐ کا محبّ، اور ان کی ولایت رکھتا ہو اور ان کے دشمنوں سے بیزاری رکھتا ہو۔ وہ اگر گنہگار بھی ہو وہ مذکورہ مراحل کو طے کرنے کے بعد بالاخر جنت میں ضرور جائے گا۔ اور ممکن ہے کہ خدا اسے محمد وآل محمد کے صدقے میں بخش دے۔ نیز مخفی نہ رہے کہ شیعہ کا عقیدہ یہ ہے عصیان سے انسان عقاب کا مستحق ہوجاتا ہے یہ حتمی نہیں کہ وہ بالفعل ضرور عقاب دیکھے گا۔ ہوسکتا ہے کہ خدا اسے اپنی رحمت سے بخش دے کیونکہ وہ بہت بخشنے والا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ خدا کا عذاب بہت سخت ہے کسی صورت میں بھی اس کی نافرمانی نہیں کرنی چاہیے۔


 



[1]۔ بحار الانوار، ج۷، ص ۲۶۰۔

[2]۔ بحار الانوار، ج۷، ص ۲۶۷۔

[3]۔سورہ شوریٰ ، آیت ۲۳۔

[4]۔بحار الانوار، ، ج۷، ص ۲۶۵۔

[5]۔ بحار الانوار، ، ج۷، ص ۲۵۸؛ مناقب علی بن ابی طالب لابن المغازلی، ص ۳۴۶؛ کفایۃ الطالب، ص ۳۲۴ عن ابی ذر؛ فرائد السمطین، ج۲، ص ۳۵۱ و کتب دیگر۔

[6]۔بحار الانوار، ج۷، ص ۲۵۹۔

[7]۔مقتل الخوارزمی، ص ۷۴۔

[8]۔سورہ تکاثر، آیت ۸۔

[9]۔بحار، ج۷، ص ۲۶۶؛ینابیع المودۃ، ص ۱۳۱ ، طبعہ حیدریہ؛شواہد التنزیل، ج۲، ص ۲۶۸۔

[10]۔بحار، ج۷، ص ۲۷۲۔

[11]۔صافات، آیت ۲۴۔

[12]۔صواقع محرقہ، ص ۸۹؛تفسیر روح المعانی، ج۲۳، ص ۲۸؛کفایۃ الطالب، ص ۲۴۷؛ تذکرۃ الخواص، ص ۱۷؛ فرائد السمطین، ج۱، ص ۷۹؛ درر السمطین، زرندی حنفی، ص ۱۰۹۔

© COPYRIGHT 2020 ALJAWAAD ORGAZNIZATION - ALL RIGHTS RESERVED
گروه نرم افزاری رسانه