جنگ احد سے واپسی پر

آنحضرتۖ مدینہ میں تشریف لائے تو تمام مدینہ ماتم کدہ تھاآپ ۖ جس طرف سے گزرتے تھے گھروں سے ماتم کی آوازیں آتی تھی ۔ آپ ۖ کو عبرت ہوئی کہ سب کے عزیز واقارب ماتم داری کا فرض اداکر رہے ہیں لیکن حمزہ کا کوئی نوح خواں نہیں ہے رقت کے جوش میں آپ ۖ کی زبان سے بے اختیار نکلا''اما حمزہ فلا بواکی لہ''. (۲)لیکن حضرت حمزہ کا کوئی رونے والا نہیں انصار مدینہ نے یہ الفاظ سنے توتڑپ اٹھے سب نے جا کر اپنی بیویوں کو حکم دیاکہ دولت کدہ پر جاکر حضرت حمزہ کا ماتم کرو آنحضرت ۖ نے دیکھا تودروازہ پر پردہ نشیناں انصار کی بھیڑ تھی اورحضرت حمزہ کا ماتم بلند تھا ان کے حق میں دعائے خیر کی اورفرمایا:میں تمہاری ہمدردی کا شکر گزار ہوں''. (۳)

نوٹ:حضرت حمزہ جو اپنے زمانے کے سید الشہداء بھی ہیں ان کا ماتم خود سید الانبیائۖ کروا رہے ہیں تو معلوم ہوا کہ شہید کا ماتم بدعت نہیں بلکہ سنت رسول ۖ ہے۔(۴)

(۱) قصص الانبیاء، تاریخ الطبری، ج١، ص٩٢ طبع بیروت.

(۲)سیرة النبی، ج اول ص ٣٥٥(ذکر احد)

(۳)طبقات الکبری ج٢، ص٤٤۔ تاریخ الطبری، ج٢، ص٧٤ حوادث سنہ ٣ تاریخ الکامل ج٢، ص١٦٣.

(۴)سیرة حلبیہ ج٢، ص٤٦ ٥طبع دارالمعرفة بیروت میں ہے کہ رسول خدا ۖ نے انصار کی عورتوں اور ان کی اولاد کو دعا دی.

اورمعارج النبوة رکن چہارم ،ص ٨٣ مولفہ معین کاشفی طبع بمبئی میں ہے کہ رسول خدا ۖ نے انصار کی عورتوں کی اولاد کی اولاد کو بھی دعادی ہے۔

© COPYRIGHT 2020 ALJAWAAD ORGAZNIZATION - ALL RIGHTS RESERVED
گروه نرم افزاری رسانه