باب اول
یہ بات کسی پر مخفی نہیں ہے کہ مصیبت کے عالم میں گریہ و بکاء ایک فطری چیز ہے جس کا کسی کو کوئی انکار نہیں ہے اوراسلام میں بھی ہر گریہ منع نہیں ہے ۔
دنیا کے ہر زمانے میں سبھی مذاہب و ملت اپنے بزرگان کی یادمناتے آرہے ہیں اوریہ امر عند العقلاء مستحسن اورپسندیدہ ہے لیکن جب امام حسین علیہ السلام کی باری آئی تو اس مستحسن و مرغوب امر یعنی یادمظلوم امام حسین علیہ السلام پر اعتراض کیوں!
دراصل بات یہ ہے کہ سید الشہداء کی یادسے ان کے دشمنوں کا پردہ چاک ہوتا ہےاور بنی امیہ کی برائیاں ظاہرہوتی ہیں تو انہی کی سیاست سے عزاداری کو روکنے کے لئے طرح طرح کے حربے استعمال کئے گئے کبھی فتوؤں کے ذریعے کبھی طاقت کے بل پراور کبھی شبہات کے القاء سے کہ شہید زندہ ہوتا ہے اورزندہ پر گریہ و بکاء کیوں؟
تو اس سلسلے میں اگر چہ جواز ماتم اورعزاداری پربہت کچھ لکھا جاچکا ہے لیکن ہم نے بھی مناسب سمجھا کہ ایک مختصر سی گفتگو ہو جائے تاکہ امام حسین کے مدافعین میں ہمارا بھی نام درج ہو جائے اورہم نے اس رسالہ میں عزاداری کے بارے میں اختصار کی وجہ سے دوسرے با ب میںصرف رسول خدا ۖ سے چندروایات نقل کی ہیں تاکہ خود قارئین پڑھ کر انصاف سے فیصلہ کرلیں کہ یہ شبہات جو مخالفین کی طرف سے القاء کئے جاتے ہیں کہاں تک درست ہیں۔
ان شبہات میں سے ایک شبہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ جب شہید زندہ ہے تو پھر اس پر گریہ و زاری کیسی ؟اس کا جواب یہ ہے کہ
اگر چہ قرآن مجید اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ شہید زندہ ہےاور ہم سب اس کو دل کی گہرائیوں سے تسلیم کرتے ہیں لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ شہید زندہ ہے اس زندگی سے کیا مراد ہے ؟
آیا راہ اسلام میں قربان ہونے والے شہید پرظاہری طور پر زندوں کے احکام مرتب ہوتے ہیں یا اموات کے؟
شہید پر نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے
شہید کی میراث تقسیم کی جاتی ہے
شہید کی بیوہ عدت کے بعد کسی دوسرے سے شادی کر سکتی ہے
شہید کی صغیرہ اولاد پر یتیم کا اطلاق ہوتا ہے
شہید کے لئے مجالس تراحیم بر پا کی جا تیں ہیں
ان مذکورہ امور سے کسی کو انکار نہیں ہے
اب ہمیں بھی معترضین سے سوال کرنے کا حق حاصل ہے کہ اگر شہید زندہ ہے تو زندگی کی جو صورت آپ کے ذہن میں ہے اس بنا پرپھر زندہ پر نماز جنازہ کیسی؟زندہ کی میراث کو تقسیم کرنا کیسا؟''قس علی ھذا سائر الامور ''۔
قرآن مجید کی منطق سے ناواقف لوگ شیعوں پر بغیر سوچے سمجھے اعتراض تو کر بیٹھتے ہیں لیکن اس مسئلہ کے حل کے لئے خود مشکلات سے دو چار ہوجاتے ہیں۔
مذکورہ ان دوباتوں میں جمع یوں ہے کہ ظاہری زندگی کے مفقود ہونے کی وجہ سے ان کے لئے اموات کے احکام نافذ ہوتے ہیں لیکن باطنی زندگی اورتصرفات کی بقاء کی وجہ سے انھیں زندہ کہا جاتا ہے اس لئے ان کی مظلومیت پر گریہ وبقاء کسی صورت میںبھی ناجائز نہیں ہےبعبارت دیگر شہید کی زندگی سے مراد معنوی اورعالم برزخ کی زندگی ہے نہ کہ ظاہری زندگی ۔
مزیدتسلی کے لئے شہید پر گریہ وبقاء کے چند تاریخی شواہد اہل سنت کی معتبر کتب سے پیش خدمت ہیں۔
ابو البشر حضرت آدم صفی اللہ اپنے شہید بیٹے حضرت ہابیل پر برسوں روتے رہے ۔(١)
طبر ی کی عبارت یوں ہے: ''لما قتل ابن آدم اخاہ بکاہ آدم''.جب حضرت آدم کے بیٹے کو اس کے بھائی نے قتل کر دیاتو حضرت آدم اس پر روئے۔
اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ شہید پر گریہ وبکاء کرنا بدعت نہیں بلکہ سنت حضرت آدم ہے نیز یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جس نے سب سے پہلے شہید پر گریہ کیا وہ خلیفة اللہ حضرت آدم ہیں ۔
دوسری درد ناک کہانی شہید حضرت حمزہ عم رسول خدا ۖ کی ہے جس کو اہل سنت کے مایہ ناز مورخ اسلام شبلی نعمانی نے یوں تحریر فرمایا ہے :