پانچواں باب

 
قیامت

 


سب ادیان الٰہی کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس دنیا کے ختم ہوجانے کے بعد خدا پھر سب کو اپنی قدرت کاملہ سے زندہ کرے گا تاکہ ہر ایک کو اس کے اعمال کی جزا، سزا ملے۔

عقیدہ توحید کے بعد عقیدہ قیامت بہت اہمیت کا حامل ہے قرآن مجید میں قیامت کے بارے میں تقریباًٍ بارہ سو آیات ہیں تقریباً تیس مقامات میں خدا پر ایمان کے ذکر کے ساتھ آخرت پر ایمان کا ذکر ہوا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آخرت پر ایمان لانے کا مسئلہ نہایت ہی اہم ہے۔جس کے بغیر انسان کا ایمان کامل نہیں ہوتا۔

قیامت کے دن کے نام:آیات و روایات میں قیامت کے بہت سے ناموں کا استفادہ ہوتا ہے جن میں سے ۷۶ اسماء کو بعض علماء نے اپنی کتب([1]) میں تحریر فرمایا ہے جن میں سے چند ایک کے نام ذکر کیے جاتے ہیں:

یوم القیامہ، یوم الساعۃ، یوم البعث، یوم الحشر، یوم الجمع، یوم الحساب، یوم الفصل، یوم مشہود، یوم الدین، یوم الجزاء، یوم النشور، یوم الخزی، یوم السوء، یوم النغمہ، یوم الواقعہ، یوم الحسرۃ، یوم الندامۃ، یوم الموعود، یوم العرض، یوم التبدل، یوم الطی، یوم الصف، یوم التکویر، یوم الانکدار، یوم السیر، یوم الانفجار، یوم الاخذ، یوم العسیر، یوم العض، یوم الخشوع۔

قیامت کا دن پچاس ہزار سال کا ہوگا۔([2])

امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ قیامت کے دن پچاس موقف ہوں گے ہر ایک موقف پر لوگوں کو ایک ہزار سال تک ٹھہرنا ہوگا۔

عقیدہ قیامت کے فوائد اور آثار

  1. 1.قیامت پر اعتقاد رکھنے سے انسان کی زندگی بامقصد ہوجاتی ہے کیونکہ وہ جب بھی کوئی کام انجام دینے لگتا ہے تو اسے آخرت کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے لہذا اپنے ہر کام میں محتاط ہوجاتا ہے۔ چونکہ اس کا عقیدہ ہے{ فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ ۔ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ}([3]) جو بھی ذرہ برابر نیک عمل کرے گا وہ اس کو دیکھے گا اور جو ذرہ برابر بد عمل کرے گا اس کو دیکھے گا۔
  2. 2.آخرت پر ایمان رکھنے والا شخص، دنیا پرست نہیں بنتا۔
  3. 3.آخرت پر ایمان، دستورات دینی کے اجرا کا ضامن ہوجاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ انسان اپنے وظائف کو انجام دینے کے لیے مشکلات کو برداشت کرلیتا ہے تاکہ آخرت کی سعادت کوپاسکے۔


اثبات قیامت پر دلائل

قیامت کے اثبات پر عقلی اور نقلی بہت دلائل پائے جاتے ہیں جن میں سے بعض کو ذکر کیاجاتاہے۔

دلائل عقلی:

۱۔ دنیا میں ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ لوگوں میں لڑائی جھگڑے پائے جاتے ہیں کئی لوگ دوسروں کو ناحق قتل کر دیتے ہیں لوگوں کا مال لوٹ لیتے ہیں ان کی ناموس کی ہتک کرتے ہیں اس دنیا میں مظلوموں کا جان و مال و ناموس، ستمگروں کی ہوا و ہوس میں پائمال ہوا ہے اور ہو رہا ہے اور ان کا کوئی دادرس بھی نہیں، یہ بیچارے انتقام پر بھی قادر نہیں۔ تو اس بناء پر ضروری ہے کہ خدا مظلوموں، بیچاروں، ضعیفوں پر ہونے والے ظلم کے انتقام کے لیے کوئی سزا کا دن مقرر فرمائے اور ظالموں کو ان کے اعمال کی سزا دے ورنہ خدا کی حکمت اور عدل کے ساتھ منافات ہوجائے گی۔

۲۔ اگر قیامت نہ ہو رسول کے بھیجنے کا، آسمانی کتابوں کے نازل کرنے اور نماز، روزہ وغیرہ کے احکام اور وظائف لغو ہوجائیں گے۔چونکہ اس صورت میں مومن اور کافر ، مطیع اور عاصی میں فرق نہیں ہوگا۔ بلکہ لازم آئے گا مومن اور مطیع ، کافر و عاصی سے بدتر ہوجائے چونکہ وہ دنیا میں دینی دستورات کی وجہ سے کئی لذات دنیا سے محروم رہا اور فرض یہ کہ آخرت بھی نہیں تو اس صورت میں مومنین نے صرف دنیا میں رنج ہی رنج دیکھے۔

پس ضروری ہے کہ آخرت (قیامت) بھی ہو جس میں مطیع، مومنین کے نیک اعمال کی ان کو جزا ملے اور عاصیوں اور کافروں کو ان کے اعمال بد کی سزا ملے، پس قیامت کا ہونا ضروری اور لازمی ہے۔

۳۔ اگر قیامت نہ ہو تو یہ خدا کی حکمت کے ساتھ سازگار نہیں ہے چونکہ قرآن میں تقریباً سو مرتبہ خدا کی توصیف میں کلمہ حکیم استعمال ہوا ہے اور اس دنیا میں ہم خدا کی حکمت کی نشانیاں دیکھ رہے ہیں یہ اتنا وسیع نظام کائنات، جو کہ انسان کے لیے ہے اگر فرض یہ کریں انسان کی موت کے ساتھ سب چیزوں کا خاتمہ ہے اور اس کے بعد آخرت کا عالَم نہ ہو تو پھر اس کائنات کو خلق کرنا عبث اور بیہودہ لازم آئے گا۔ اور خدائے حکیم کوئی عبث کام نہیں کرتا۔

دلائل نقلی:

{ أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لا تُرْجَعُونَ }([4])

کیا تمہارا خیال یہ تھا کہ ہم نے تمہیں بیکار پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف پلٹا کر نہیں لائے جاؤ گے۔

{ وَأَنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ لا رَيْبَ فِيهَا وَأَنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ مَنْ فِي الْقُبُورِ }([5])

اور قیامت یقیناً آنے والی ہے اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے اور اللہ قبروں سے مردوں کو اٹھانے والا ہے۔

{ قُلْ إِنَّ الأوَّلِينَ وَالآخِرِينَ ۔ لَمَجْمُوعُونَ إِلَى مِيقَاتِ يَوْمٍ مَعْلُومٍ}([6])

آپ کہہ دیجئے کہ اولین و آخرین سب کے سب ایک مقرر دن کی وعدہ گاہ پر جمع کئے جائیں گے۔

{ زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلَى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ وَذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ }([7])

ان کفار کا خیال یہ ہے کہ انہیں دوبارہ نہیں اٹھایا جائے گا تو کہہ دیجئے کہ میرے پروردگار کی قسم تمہیں دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور پھر بتایا جائے گا کہ تم نے کیا کیا ہے اور یہ کام خدا کے لیے بہت آسان ہے۔

{ فَسَيَقُولُونَ مَنْ يُعِيدُنَا قُلِ الَّذِي فَطَرَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ }([8])

عنقریب یہ لوگ کہیں گے کہ ہمیں کون دوبارہ واپس لاسکتا ہے تو کہہ دیجئیے کہ جس نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے۔

{ أَيَحْسَبُ الإنْسَانُ أَنْ يُتْرَكَ سُدًى ۔ أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِنْ مَنِيٍّ يُمْنَى ۔ ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّى ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالأنْثَى ۔ أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَى }([9])

کیا انسان کا خیال یہ ہے کہ اسے اسی طرح آزاد چھوڑ دیا جائے گا کیا وہ اس منی کا قطرہ نہیں تھا جسے رحم میں ڈالا جاتا ہے پھر علقہ بنا پھر اسے خلق کرکے برابر کیا پھر اس سے عورت اور مرد کاجوڑا تیار کیا کیا وہ خدا اس بات پر قادر نہیں ہے کہ مردوں کو دوبارہ زندہ کرسکے۔

معاد جسمانی

شیعہ کا عقیدہ یہ ہے کہ قیامت کے دن انسان کا جسم اور روح دونوں لوٹیں گے:

{ أَفَلا يَعْلَمُ إِذَا بُعْثِرَ مَا فِي الْقُبُورِ}([10])

کیا اسے نہیں معلوم ہے کہ جب مردوں کو قبروں سے نکالا جائے گا۔

{ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَإِذَا هُمْ مِنَ الأجْدَاثِ إِلَى رَبِّهِمْ يَنْسِلُونَ ۔ قَالُوا يَا وَيْلَنَا مَنْ بَعَثَنَا مِنْ مَرْقَدِنَا هَذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمَنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُونَ }([11])

اور پھر جب صور پھونکا جائے گا تو سب کے سب اپنی قبروں سے نکل کر اپنے پروردگار کی طرف چل کھڑے ہوں گے کہیں گے کہ آخر یہ ہمیں ہماری خواب گاہ سے کس نے اٹھا دیا ہے بے شک یہی وہ چیز ہے جس کا خدا نے وعدہ کیا تھا اور اس کے رسولوں نے سچ کہا تھا۔

{الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَى أَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ}([12])

آج ہم ان کے منھ پر مہر لگادیں گے اور ان کے ہاتھ بولیں گے اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے کہ یہ کیسے اعمال انجام دیا کرتے تھے۔

ان آیات میں صراحت ہے کہ معاد جسمانی و روحانی ہے۔

{ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلا وَنَسِيَ خَلْقَهُ قَالَ مَنْ يُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ ۔ قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أَنْشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ}([13])

اور ہمارے لیے مثل بیان کرتا ہے اور اپنی خلقت کو بھول گیا ہے کہتا ہے کہ ان بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کرسکتا ہے ، آپ کہہ دیجئیے کہ جس نے پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے وہی زندہ بھی کرےگا اور وہ ہرمخلوق کا بہتر جاننے والا ہے۔

تفاسیر میں ان آیات کے شان نزول میں ذکر ہوا ہے کہ ایک شخص بنام ابی بن خلف جحمی نے کسی مردہ انسان کی ہڈی کو جب پایا تو اسے پکڑ کر جلدی سے حضورؐ کی خدمت میں پہنچا اور ہڈی کو توڑ کر ہوا میں پھینک کر کہتا ہے اس بوسیدہ ہڈی کو کون زندہ کرے گا تو مذکورہ آیات نازل ہوئیں کہ جس نے اسے پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے وہی اس کو زندہ بھی کرے گا۔

مخفی نہ رہےکہ بہت ساری آیات و روایات معاد جسمانی پر دلالت کرتی ہیں لیکن مقام میں اسی میں کفایت ہے۔

نیز حضرت ابراہیم کا پرندوں کو ذبح کرنا پھر ان کا زندہ ہونا، قوم موسیٰ سے ستر آدمیوں کا زندہ ہونا اور داستان حضرت عزیر ؑ، نیز پیغمبر اسلام ﷺ اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کا مردوں کو زندہ کرنا معاد جسمانی و روحانی کا عینی محکم اور واضح ثبوت ہے۔


برزخ

موت سے لے کر قیامت تک کے عالم کو برزخ کہتے ہے۔

اور اس عالم برزخ سے ہر کوئی ڈرتا ہے چونکہ حدیث میں ہے قبر، یا جنت کے باغوں میں سے باغ یا جہنم کے آگ کے گڑھوں میں سے گڑھا بن جائے گا۔

صاحب ایمان قبر میں نعمات الٰہی سے متنعم ہوں گے اور کفار اور نواصب، عذاب الٰہی میں معذب ہوں گے۔ اور علامہ مجلسی علیہ الرحمۃ تحریر فرماتے ہیں([14]) کہ مستضعفین کے بارے میں بعض روایات کا ظاہر یہ ہے کہ ان کو مہمل چھوڑ دیا جائے گا اور انہیں قبر میں عذاب نہیں ہوگا۔قیامت کے دن ان کے حساب کی تکلیف روشن ہوگی پھر جنت یا جہنم جائیں گے۔

مرتے وقت چند امور انسان کے لیے آشکار ہوتے ہیں:

۱۔ مرنے والا ملک الموت اور دوسرے ملائکہ کو دیکھے گا۔

۲۔ پیغمبر اسلام ﷺ اور معصومین علیہم السلام کی زیارت کرے گا([15]) مروی ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا: مرنے والا ہم اہل بیت ؑ کو دیکھے گا اگر وہ ہمارا محبّ ہوگا تو میں ملَکَ الموت کو حکم دوں گا کہ اس سے نرمی کرنا کیونکہ یہ مجھے اور میری اہل بیت ؑ کو دوست رکھتا ہے اور اگر وہ ہم سے بغض رکھنے والا ہوگا تو ملک الموت کو حکم دوں گا کہ اس پر سختی کرنا کیونکہ یہ مجھے اور میری اہل سے بغض و عداوت رکھتا تھا ہم سے سوائے مومن کے کوئی محبت نہیں کرتا اور سوائے مناق و شقی کے کوئی بغض نہیں رکھتا۔([16])

امام صادق علیہ السلام سے حدیث میں ہے کہ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ محمد بن حنظلہ کہتا ہے میں نے امام علیہ السلام کی خدمت میں مرتے وقت کے حالات کے بارے میں ایک حدیث کی تصدیق کے بارے میں سوال کیا جو کہ ان کے والد گرامی سے بعض شیعوں نے روایت کی ہے تو امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس حدیث کی تصدیق فرمائی اور فرمایا یہ اس وقت ہوگا جب اللہ کے نبی ؐ اور علی علیہ السلام جبرائیل اور ملک الموت آئیں گے۔وہ فرشتہ ، حضرت علی ؑ کی خدمت میں عرض کرے گا اے علی ؑ کیا فلاں شخص آپ اور آپ کی عترت و اہلبیت کو دوست رکھتا تھا؟ حضرت علی علیہ السلام فرمائیں گے: ہاں، وہ ہمیں دوست رکھتا تھا اور ہمارے دشمنوں سے بیزاری کرتا تھا۔ یہی بات رسول خداؐجبرائیل کو فرمائیں گے اور جبرائیل اس کو بارگاہ الٰہی میں پیش کرے گا۔([17])

۔۔۔إِذَا كَانَ ذَلِكَ أَتَاهُ نَبِيُّ اللَّهِ وَ أَتَاهُ عَلِيٌّ وَ أَتَاهُ جَبْرَئِيلُ وَ أَتَاهُ مَلَكُ الْمَوْتِ فَيَقُولُ ذَلِكَ الْمَلَكُ لِعَلِيٍّ ع يَا عَلِيُّ إِنَّ فُلَاناً كَانَ مُوَالِياً لَكَ وَ لِأَهْلِ بَيْتِكَ؟ فَيَقُولُ نَعَمْ، كَانَ يَتَوَلَّانَا وَ يَتَبَرَّأُ مِنْ عَدُوِّنَا فَيَقُولُ ذَلِكَ نَبِيُّ اللَّهِ لِجَبْرَئِيلَ، فَيَرْفَعُ ذَلِكَ جَبْرَئِيلُ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ ۔

البتہ مخفی نہ رہے کہ معصومین علیہم السلام کا ہر محتضر (ہر مرنےوالے) کے پاس آنے کا عقیدہ رکھنا واجب ہے لیکن ان ذوات مقدسہ کے آنے کی کیفیت کے بارے میں کہ وہ کیسے آتے ہیں یہ جاننا ضروری نہیں ہے۔ ([18])

۳۔ نیز روایات میں ہے کہ ہرمرنے والا موت کے وقت اپنا مکان جنت یا دوزخ کو دیکھ کر مرتا ہے۔

مرتے وقت مومنین کے پاس شیطان آئے گا جو انہیں ولایت امیر المومنین علی ؑ اور ائمہ طاہرین ؑ سے ہٹانے کی کوشش کرے گا چونکہ روایت میں ہے کہ مرتے وقت انسان کو شدید پیاس لگے گی اور شیطان پانی کاپیالہ لے کر اس کے سامنے آئے گا اور اسے پانی کا لالچ دے گا کہ اگر تو عقیدہ ولایت سے ہٹ جائے تو پانی پلاؤں گا اگر خدانخواستہ مرنے والا ضعیف العقیدہ ہو تو وہ اس کے جال میں آجائے گا اور عقیدہ ولایت سے ہاتھ دھو بیٹھے گا اور شیطان پانی بھی نہیں پلائے گا بلکہ ہنستا ہوا چلا جائے گا۔

حقا کہ شیطان، انسان کا عدوّ مبین ہے۔ اگرچہ شیطان،ہمیشہ کوشش کرتا ہے کہ مومنین کو عقیدہ ولایت ائمہ علیہم السلام سے ہٹائے لیکن مرنے کے وقت یہ اس کا آخری حربہ ہوتا ہے۔ خداوند متعال بحق محمد و آل محمد سب مومنین کو ولایت آل محمد پر ثابت قدم رکھے اور شیاطین کے شر اوروسواس سےمحفوظ فرمائے۔

قبر میں سوال

شیعہ کا عقیدہ ہے کہ قبر میں عقائد کے بارے میں سوال ہوگا۔ بالخصوس عقیدہ توحید، کہ تیرا رب کون ہے؟ عقیدہ رسالت کہ تیرا نبی کون ہے؟ اور عقیدہ ولایت کہ تیرا امام کون ہے؟ امام رضا علیہ السلام اپنے آباء طاہرین کے واسطہ سے رسول خدا ؐ سے نقل فرمایا ہے کہ آپ ؐ نے حضرت علی ؑ کو مخاطب کرکے فرمایا: بندہ سے مرنےکے بعد سب سے پہلا سوال توحید، رسالت اور تیری ولایت کا ہوگا جس کو اللہ نے قرار دیا ہے اور میں نے تیرے لیے قرار دیا ہے جو شخص اس کا اقرار کرے گا اور وہ اس کا معتقد بھی ہوگا وہ نعیم کی طرف چلا جائے گا جس کے لیے زوال نہیں۔([19])

امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: جو شخص چار چیزوں کا انکار کرے وہ ہمارے شیعوں سےنہیں ہے۔ معراج، قبر میں سوال ، جنت اور دوزخ کی خلقت اور شفاعت۔

عن ابی عبد اللہ قال لیس منّا من انکر اربعۃ المعراج، و سؤال القبر و خلق الجنۃ و النار و الشفاعۃ۔([20])

جنت اور دوزخ

شیعہ کا عقیدہ یہ ہے کہ جنت اور دوزخ خلق ہوچکی ہیں نہ یہ کہ بعد میں خلق ہوں گی۔ شیعہ کی دلیل قرآن کی آیات([21]) اور معراج پیغمبرؐ ہے چونکہ پیغمبر اسلام نے جنت کی سیر کی ہے اور دوزخ کا مشاہدہ کیا ہے یہی وجہ ہے کہ حضورؐ نے معراج سے واپسی پر اپنے اصحاب کو جنت و دوزخ کے بارے میں جو کچھ وہاں دیکھا تھا بقدر ضرورت بیان کیا ہے۔ امام رضا علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ جو کچھ جنت اور دوزخ کی فعلیت کا منکر ہے وہ آیات قرآن، اور معراج پیغمبرؐ کا منکر اور کافر ہے۔


قیامت کے دن سوالات

اگرچہ قیامت کے دن کئی ایک چیزوں کے متعلق پوچھا جائے گا لیکن بعض روایات میں آیا ہے کہ قیامت کے دن سب سےپہلے محبت اور ولایت کے متعلق سوال ہوگا۔

رسول خداؐ نے ارشاد فرمایا: اول ما یسأل عنہ العبد حبنا اہل البیت؛ سب سے پہلے بندے سے ہماری اہل بیت ؑ کی محبت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔([22])

ابو بصیر کہتے ہیں میں نے امام محمد باقر ؑ سے سنا کہ فرمایا کرتے تھے سب سے پہلے بندے سے نماز کے بارے میں حساب لیا جائے گا اگر نماز قبول ہوگی تو سب اعمال قبول ہوجائیں گے۔([23])

مذکورہ روایتیں آپس میں کوئی منافاۃ نہیں رکھتیں چونکہ پہلی حدیث عقیدہ کے مربوط ہے اور دوسری حدیث عمل کے مربوط ہے۔

نیز مخفی نہ رہے کہ سب اعمال کی قبولیت کی شرط ولایت آل محمد علیہم السلام ہے اور اس کی دلیل یہ آیت ہے:{ ذَلِكَ الَّذِي يُبَشِّرُ اللَّهُ عِبَادَهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ قُلْ لا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى وَمَنْ يَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَزِدْ لَهُ فِيهَا حُسْنًا إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ شَكُورٌ}([24])۔

۔۔۔ آپ کہہ دیجئیے کہ تم میں سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا علاوہ اس کے میرے اقرباء سے محبت کرو اور جو شخص بھی کوئی نیکی حاصل کرے گا ہم اس کی نیکی میں اضافہ کردیں گے بے شک اللہ بہت بخشنے والا اور قدر دان ہے۔

مودت اہل بیت اجر رسالت ہے اور جس نے اہل بیت سے مودت نہ کی اس نے اجر رسالت نہیں دیا لہذا اس کا کوئی عمل قبول نہیں ہے۔ اور آیت میں حسنہ سے مراد بھی ولایت اہل بیت ہے۔ اس نیکی سےمراد عام حسنہ بھی ہو تو اس کا محبت اہل بیت ؑ کے مطالبہ کے بعد آیت میں ذکر ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ محبت اہل بیت ؑ کے بعد جو نیکی بھی کی جاتی ہے خدائے کریم اس میں اضافہ کر دیتا ہے اور محبت اہل بیت ؑ کے بغیر جو نیکی انجام دی جاتی ہے وہ فاقد اعتبار اور قبول نہیں ہے۔

امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ رسول خدا ؐ نے فرمایا: سب سے پہلے بارگاہ الٰہی میں ، میں حاضر ہوں گا پھر کتاب خدا قرآن، پھر میری اہل بیت پھر میری امت۔ یہ کھڑے ہوں گے تو خدا ان سے پوچھے گا کہ میری کتاب کے ساتھ کیا کیا اور اپنے پیغمبر کے اہل بیت ؑ کے ساتھ کیا سلوک کیا۔([25])

امام موسی کاظم علیہ السلام نے اپنے اباء طاہرین ؑ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خداؐ نے فرمایا: کوئی بندہ اپنا قدم نہیں اٹھائے گا مگر یہ کہ اس سے چار چیزوں کے بارے میں سوال ہوگا اپنی زندگی کو کہاں صرف کیا، اپنی جوانی کوکہاں مبتلا کیا، اس کے مال کے بارے میں کہ کیسے کمایا اور کہاں خرچ کیا اور ہماری اہل بیتؑ کی محبت کے بارے میں، پوچھا جائے گا۔([26])

امام محمد باقر ؑ سے بھی اسی مضمون کی روایت مروی ہے اور امالی شیخ میں ہے کہ قوم سے ایک شخص نے کہا: یا رسول اللہؐ آپ کی محبت کی علامت کیا ہے؟ فرمایا: اس کی محبت اور اپنا دست مبارک علی بن ابی طالب ؑ کے سر مبارک پر رکھا([27])۔ اور ابو برزہ کی روایت میں ہے کہ عمر نے کہا کہ آپؐ کے بعد آپؐ سے محبت کی علامت کیا ہے؟ حضور نے اپنا دست مبارک حضرت علی ؑ جو کہ آپ کی جانب تشریف فرما تھے کے سر مبارک پر رکھا اور فرمایا: بے شک میرے بعد میری محبت کی نشانی ان کی محبت ہے۔([28])

ارشاد رب العزت ہے:{ ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ}([29])

پھر تم سے اس دن ضرور بالضرور نعمت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

امام   باقر علیہ السلام فرماتے ہیں نعیم سے مراد ولایت ہے۔([30])

امام صادق ؑ فرماتے ہیں:خدا کریم تر ہے اس سے کہ مومن سے کھانے پینے کے بارے میں سوال کرے۔([31])

{ وَقِفُوهُمْ إِنَّهُمْ مَسْئُولُونَ}([32]) ذرا ان کو ٹھہراؤ کہ ابھی ان سے کچھ سوال کیا جائے گا۔

اور وہ سوال ولایت کے بارے میں ہوگا۔([33])

قیامت کے دن مومنین جنت میں جائیں گے جنت کی نعمات اور آسائشات و لذات کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ اور کفار و مشرکین منافقین اور نواصب جہنم میں جائیں گے اور جہنم میں طرح طرح کے شدید اور دردناک عذاب ہیں اور یہ لوگ جہنم میں ہمیشہ ذلت و خواری اور سختی عذاب میں مبتلا رہیں گے۔

مومنین میں سےجو گناہ گار ہیں ان کےگناہوں کا کفارہ ممکن ہے اسی دنیا میں ہوجائے جیسے بیمار ہونا، یا مقروض ہونے یا ہمسایہ کے آزار و اذیت کی وجہ سے، وغیرہ۔ اگر ان چیزوں سے بھی اس کے گناہ پاک نہ ہوئے تو اس کی موت، کفارہ گناہ بن جائے گی اگر پھر بھی پاک نہ ہوں (مثلاً گناہوں کی زیادتی کی وجہ سے) تو قبر میں عذاب میں مبتلا ہوگا اور قبر سے گناہوں سےپاک ہوکر نکلے گا اگر پھر بھی گناہوں کی زیادتی کی وجہ سے پاک نہ ہوسکا تو محشر کی سختی سے پاک ہوجائے گا اگر پھر بھی گناہوں سے پاک نہ ہوا تو جہنم کے پہلے طبقہ میں رکھا جائے گا جب گناہوں سے پاک ہوجائے گا تو جنت میں چلا جائے گا۔ ممکن ہے کہ لیاقت رکھنے کی وجہ سے معصومین علیہم السلام کی شفاعت سے خدا اس کے گناہ بخش دے اور جنت میں چلا جائے۔

مخفی نہ رہے کہ جو بھی محمد و آل محمدؐ کا محبّ، اور ان کی ولایت رکھتا ہو اور ان کے دشمنوں سے بیزاری رکھتا ہو۔ وہ اگر گنہگار بھی ہو وہ مذکورہ مراحل کو طے کرنے کے بعد بالاخر جنت میں ضرور جائے گا۔ اور ممکن ہے کہ خدا اسے محمد وآل محمد کے صدقے میں بخش دے۔ نیز مخفی نہ رہے کہ شیعہ کا عقیدہ یہ ہے عصیان سے انسان عقاب کا مستحق ہوجاتا ہے یہ حتمی نہیں کہ وہ بالفعل ضرور عقاب دیکھے گا۔ ہوسکتا ہے کہ خدا اسے اپنی رحمت سے بخش دے کیونکہ وہ بہت بخشنے والا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ خدا کا عذاب بہت سخت ہے کسی صورت میں بھی اس کی نافرمانی نہیں کرنی چاہیے۔


اعراف

جنت اور دوزخ کے درمیان ایک اونچا ٹیلہ ہے ممکن ہے کہ قرآن میں حجاب سے مراد یہی ہو جس پر (لوگوں کی پہچان کی غرض سے) ہمارے نبی ؐ اور ائمہ طاہرین ؑ کھڑے ہوں گے اور جنتیوں اور جہنمیوں کو پہچانتے ہوں گے([34])۔ اور اس مقام اعراف میں گناہگار مومنین کے گروہ بھی ہوں گے جو اپنے گناہوں کی وجہ سے جنت میں جانے سے ممنوع ہوں گے اور اپنے ایمان رکھنے کی وجہ سے جہنم میں بھی نہیں جائیں گے لیکن پیغمبرؐ اور ائمہ علیہم السلام کی شفاعت کے ساتھ جنت میں جانے کی اُمید رکھتے ہوں گے۔جب یہ لوگ جہنمیوں کو دیکھیں گے تو کہیں گے کہ خدایا! ہمیں ستمکار قوم کے ساتھ قرار نہ دینا تو خدا کے اذن سے معصومین ؑ ان کی شفاعت کریں گے اور وہ جنت میں داخل ہوجائیں گے۔([35])

قیامت کے بارے میں کلی اور موٹی موٹی باتوں کے متعلق ہم جانتے ہیں لیکن اس کی جزئیات اور سب حالات کا ہمیں علم نہیں ہے۔ حوض کوثر، میزان، نامہ اعمال کی تقسیم کہ اہل بہشت کو دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال دیا جائے گا اور دوزخیوں کو بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔ یہ سب چیزیں حق اور کلی طور پر معلوم ہیں ۔ حوض کوثر کے بارے میں روایات میں منقول ہے کہ وہاں لاتعداد برتن ہوں گے۔ اور حوض کوثر کا شربت مومنین کو امیر المومنین ؑ پلائیں گے اور منافقین کو حوض کوثر سے دور کریں گے۔ روایات میں ہے حضورؐ نے فرمایا: حوض کوثر پر ہر کوئی میری زیارت کرسکے گا مگر جو علی ؑ کا دشمن ہوگا، میری زیارت نہیں کرسکے گا۔

محشر کے میدان میں لواء الحمد جو کہ رسول خداؐ کا آخرت میں جھنڈا ہے جس کے سوا کوئی اور سایہ نہیں ہوگا اور وہ جھنڈا حضرت علی علیہ السلام کے دست مبارک میں ہوگا ، سب انبیاء و اوصیاء اور مومنین اس کے نیچے ہوں گے،پوری مخلوق کے لیے یہی سایہ ہوگا۔([36])

شیعہ کا عقیدہ ہے کہ قیامت کے دن ہر شخص کو صراط سے گزرنا ہوگا۔ اور روایات میں ہے کہ صراط پر سات پلیں ہیں، ہر پل کا طول سترہ ہزار فرسخ ہے اور ہر پل پر ستر ہزار فرشتے ہوں گے، جو پہلی پل پر امت محمدؐ کے ہر فرد مرد و عورت سے ولایت علی علیہ السلام اور اہل بیت محمدؐ کی محبت کے بارے میں سوال کریں گے جو عقیدہ ولایت اور محبت رکھتا ہوگا وہ بجلی کی طرح گزر جائے گا اور جو ان کا محبّ نہیں ہوگا وہ جہنم میں گر جائے گا اگرچہ اس کے پاس ستر صدیوں کے نیک اعمال بھی ہوں۔([37])

ابوبکر کا بیان ہے کہ رسول خداؐ نے فرمایا: لا یجوز احد الصراط الا من کتب لہ علی الجواز؛ قیامت کے دن کوئی شخص پل صراط سے نہیں گزر سکے گا مگر یہ کہ اس کے ہاتھ میں علی علیہ السلام کے ہاتھ کا لکھا ہوا پروانہ ہو۔([38])

بعض روایات میں ہے کہ کوئی جنت میں داخل نہیں ہوگا مگر یہ کہ علی بن ابی طالب سے پروانہ لے کر آئے۔([39])

اور بعض میں صراط کا ذکر ہے اس طرح کی روایات مختلف الفاط کے ساتھ اہل سنت کی بہت سی کتب میں موجود ہیں۔([40])


شفاعت

مخفی نہ رہے کہ ذاتاً اور استقلالاً شفاعت کا سب اختیار خدا کے لیے ہے چنانچہ ارشاد ربّ العزت ہے:{ قُلْ لِلَّهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيعًا }([41]) کہہ دیجئیے کہ شفاعت کا سب اختیار اللہ کے ہاتھوں میں ہے۔

{ مَا لَكُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا شَفِيعٍ}([42])

اور تمہارے لیے اس کو چھوڑ کر کوئی سرپرست یا سفارش کرنے والا نہیں ہے۔

لیکن اس کے اذن سے اس کے مقرب بندوں کا شفاعت کرنا آیات و روایات سے ثابت ہے اور اصل مسئلہ شفاعت مذہب شیعہ کی ضروریات سے ہے۔

چنانچہ ارشاد رب العزت ہے:{ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلا بِإِذْنِهِ }([43])

کون ہے جو اس کی بارگاہ میں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرسکے۔

{ مَا مِنْ شَفِيعٍ إِلا مِنْ بَعْدِ إِذْنِهِ }([44])

کوئی اس کی اجازت کے بغیر شفاعت کرنے والا نہیں ہے۔

{ وَلا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهُ إِلا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ }([45])

اس کے یہاں کسی کی سفارش بھی کام آنے والی نہیں ہے مگر وہ جس کو خود اجازت دے دے۔

{ وَلا يَشْفَعُونَ إِلا لِمَنِ ارْتَضَى}([46])

اور فرشتے کسی کی سفارش بھی نہیں کرسکتے مگر یہ کہ خدا اس کو پسند کرے۔

{ وَكَمْ مِنْ مَلَكٍ فِي السَّمَاوَاتِ لا تُغْنِي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا إِلا مِنْ بَعْدِ أَنْ يَأْذَنَ اللَّهُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَرْضَى}([47])

اور آسمانوں میں کتنے ایسے فرشتے ہیں جن کی سفارش کسی کام نہیں آسکتی جب تک کہ خدا- جس کے بارے میں چاہے اور اسے پسند کرے- اجازت نہ دیدے۔

{ يَوْمَئِذٍ لا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ إِلا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَنُ وَرَضِيَ لَهُ }([48])

اس دن کسی کی سفارش کام نہ آئے گی سوائے ان کے جنہیں خدا نے اجازت دیدی ہو اور وہ ان کی بات سے راضی ہو۔

اور اللہ نے ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی ؐ کو شفاعت کا حق دیا ہے۔

{ عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا}([49])

عنقریب آپ کا پروردگار اس طرح آپ کو مقام محمود تک پہنچا دے گا۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے اباء طاہرین ؑ کے واسطہ سے رسول خداؐ سے نقل کیا ہے کہآپؐ نے فرمایا: جب میں مقام محمود پر کھڑا ہوں گا تو اپنی امت کے بڑے گناہگاروں (اصحاب کبائر) کی شفاعت کروں گا پس اللہ میری شفاعت ان کے حق میں قبول فرمائے گا بخدا قسم جن لوگوں نے میری ذریت کو اذیتیں پہنچائی ہیں ان کی شفاعت نہیں کروں گا۔([50])

ابن عباس سے مروی ہے کہ حضور ؐ نےفرمایا: پانچ چیزیں مجھے عطا ہوئی ہیں کہ مجھ سے پہلے کسی کو عطا نہیں ہوئیں،جن میں ایک شفاعت ہے۔ اعطیت الشفاعۃ([51])۔ مجھے شفاعت دی گئی ہے۔

ایک حدیث میں حضور اکرمؐ فرماتے ہیں جو میری شفاعت پر ایمان نہیں رکھتا خدا اس کو میری شفاعت نصیب نہیں فرمائے گا۔([52])

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں جو شخص تین چیزوں کا انکار کردے وہ ہمارے شیعوں سے نہیں ہے ان میں سے ایک شفاعت ہے۔([53])

قیامت کے دن ہمارے نبی ؐ اور ان کی اہل بیت علیہم السلام، شفاعت فرمائیں گے۔ انبیاء ، اوصیاء، ملائکہ، قرآن، علماء اور شیعیان علی علیہ السلام بھی شفاعت کریں گے۔ اور یہ شفاعت صرف صاحبان ایمان ، گنہ گار مومنین کی ہوگی۔

کفار و مشرکین ، منافقین اور نواصب کو ہرگز شفاعت شامل نہیں ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں اگر ملائکہ مقربین اور انبیاء مرسلین بھی کسی ناصبی کی شفاعت کریں تو ان کی شفاعت پذیرفتہ نہیں ہے (البتہ وہ ناصبی کی شفاعت ہرگز نہیں کریں گے)

سماعہ بن مہران نے ابو الحسن علیہ السلام سے روایت کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ نے فرمایا: جب تجھے کوئی حاجت ہو ، کہو خدایا ! میں تیری بارگاہ میں بحق محمد و علی سوال کرتا ہوں، کیونکہ ان کی تیرے نزدیک بڑی شان اور قدر ہے اسی شان اور قدر کا واسطہ محمد اور محمد کی آل پر درود بھیج اور میری حاجت کو پورا کردے کیونکہ جب قیامت کا دن ہوگا کوئی ملک مقرب، نبی مرسل، مومن ممتحن نہیں ہوگا مگر یہ کہ وہ اس دن ان دو (محمد و علی علیہما السلام) کا محتاج ہوگا۔([54])

شفاعت کے بارے میں بہت روایات پائی جاتی ہیں مزید تفصیلات کے لیے بحار الانوار ج ۸ باب شفاعت اور کتب دیگر کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔

نوٹ: مخفی نہ رہے کہ بحار الانوار، روایات آل محمد علیہم السلام کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہے۔ علامہ باقر مجلسی نے اس عظیم الشان کتاب کو تحریر کرکے مذہب حقہ شیعہ کی بہت بڑی خدمت کی ہے چونکہ روایات ضائع ہو رہی تھیں اور انہوں نے بڑی ہمت کرکے روایات کو جمع کیا ہے اس کتاب میں بعض ضعیف روایات کی وجہ سے، اصل کتاب کو غیر معتبر قرار نہیں دیا جاسکتا اور تحقیق کا میدان وسیع ہے۔

ازالہ شبھہ:

بعض آیات میں جو شفاعت کی نفی آئی ہے مثلاً{ فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِينَ}([55])

تو انہیں سفارش کرنے والوں کی سفارش بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گی۔

اس آیت میں اصل شفاعت کی نفی نہیں ہے بلکہ ضمنا شفاعت ثابت ہے کہ سفارش کرنے والوں کی سفارش ان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گی۔

معلوم ہوا شفیع ہیں لیکن ان لوگوں کو جن کا ذکر آیت میں آیا ہے کو شفاعت کا فائدہ نہیں پہنچے گا۔ کیونکہ ان کے چار جرم تھے۔ ایک نماز گزار نہیں تھے، مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے، برے کاموں میں شامل ہوجایا کرتے تھے، قیامت کی تکذیب کرتے تھے۔ {وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّينِ}([56])

روایات کے قطع نظر خود ان آیات میں دقت کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیات کفار کے بارے میں ہیں چونکہ کوئی مسلمان قیامت کا انکار نہیں کرتا چونکہ قیامت اصول دین اور ضروریات دین سے ہے۔

جیسا کہ ذکر کیا جاچکا ہے کہ کفار و مشرکین شفاعت سے محروم ہیں۔ ہاں جو مسلمان نماز کو سبک شمار کرتے ہوئے نماز نہ پڑھے وہ شفاعت ائمہ طاہرین ؑ سے محروم رہے گا۔

{ وَاتَّقُوا يَوْمًا لا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا وَلا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلا هُمْ يُنْصَرُونَ}([57]) اس دن سے ڈرو جس دن کوئی کسی کا بدل نہ بن سکے گا اور کسی کی سفارش قبول نہ ہوگی نہ کوئی معاوضہ لیا جائے گا اور نہ کسی کی مدد کی جائے گی۔

یہ آیت یہودیوں کے مربوط ہے جنہوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا اور حق کے ساتھ عداوت کی اور انبیاء کو قتل کیا، ان کے بارے میں کوئی شفاعت قبول نہیں ہے۔

خلاصہ یہ کہ اصل شفاعت مسلمات سے ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ بنص قرآن حضورؐ تو دنیا میں بھی شفیع ہیں:

{ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا}([58])

کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا تو آپؐ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لیے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے حق میں استغفار کرتا تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ کرنے والا مہربان پاتے۔

اور سورہ منافقون کی آیت نمبر ۵ میں منافقین کی مذمت کی گئی ہے کہ وہ رسول کے پاس کیوں نہیں آتے کہ رسولؐ ان کے لیے استغفار کرتے۔

جنت کے سردار کون؟

ابی سعید خدری نے رسول خداؐ سے نقل کیا ہے کہ آپؐ نے فرمایا:

الحسن و الحسین سیدا شباب اہل الجنۃ؛([59])

حضور نے فرمایا: حسن اور حسین (علیہما السلام) جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔([60])

اور حذیفہ کی روایت میں ہے: و ابوہما افضل منہما([61])؛ اور حسنین ؑ کے والد، علی ؑ ان سے بھی افضل ہیں۔

ابن عمر نے رسول خداؐ سے روایت کی ہے کہ آپؐ نے فرمایا:الحسن و الحسین سیدا شباب اہل الجنۃ و ابوہما خیر منھما([62])؛ حسن اور حسین جنت کےجوانوں کے سردار ہیں اور ان کے والد (علیؑ) ان سے بھی بہتر ہیں۔ محدث گنجی نے اپنی کتاب میں ایک اور سند کے ساتھ اس روایت کو نقل کیا ہے۔ نقل احادیث کے بعد لکھتے ہیں:و انضمام ہذہ الأسانید بعضہا الی بعض دلیل علی صحتہ۔ ان سندوں کا بعض کو بعض کے ساتھ ضمیمہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

عن ابن عباس أن النبی (ص) نظر الی علی بن ابی طالب فقال انت سید فی الدنیا و سید فی الاخرۃ من أحبک فقد احبنی و من ابغضک فقد ابغضنی و بغیضک بغیض اللہ فالویل کل الویل لمن أبغضک۔([63])

ابن عباس نے رسول خداؐ سے روایت کی ہے کہ آپؐ نے علی بن ابی طالبؑ کی طرف نگاہ کرکے فرمایا کہ تو دنیا و آخرت کا سردار ہے جس نے تجھ سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی جس نے تجھ سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا تیرے غیض و غضب سے خدا کاغضب ہے ویل ہو اور سب ویل ہو اس کے لیے جو تجھ سے بغض رکھے۔

جنتی عورتوں کی سردار

قال النبی (ص): فَاطِمَۃُ سَیدۃِ نساءِ أہلِ الجَنَّۃِ۔([64])

پیغمبر اسلامؐ نے فرمایا: (میری بیٹی) فاطمہ جنتی عورتوں کی سردار ہے۔([65])

ذر سواچیں:کہ آپ سب نیک اعمال نماز ، روزہ، حج، زکوۃ وغیرہ کس لیے انجام دیتے ہیں؟ آخرت کے لیے (یعنی جنت کے لیے) اگر آپ کا جواب بھی آخرت ہی ہے۔ تو آخرت میں جنت کے سرداروں کا دامن تھام لیں یقین جانیے جو آخرت کے سردار ہیں وہی دنیا کے بھی سردار ہیں۔ آؤ اب بھی وقت ہے کہ محمد و آل محمد علیہم السلام کا دامن تھام لو چونکہ روح نکلنے کے ساتھ توبہ کا دروازہ بند ہوجاتا ہے اپنی عاقبت کو تباہ و برباد نہ کریں اور جہنم کا ایندھن نہ بنیں۔ بڑا خوش نصیب ہے وہ انسان جس کا عقیدہ بھی صحیح ہو اور عمل بھی صحیح ہو خدایا بحق محمد و آل محمد علیہم السلام ہر ایک کو حق سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرما، آمین ثم آمین۔

محبت آل محمدؐ

بنص قرآن، آل محمد علیہم السلام سے مودت واجب ہے، چنانچہ ارشاد رب العزت ہے { قُلْ لا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى}([66])

آپ کہہ دیجئیے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقربا سے محبت کرو ۔

اور قربیٰ سے سے مراد علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلام ہیں([67])۔ امام محمد باقر ؑ فرماتےہیں قربی، ائمہ طاہرین ہیں۔([68])

امیر المومنین علی ؑ سے فرماتے ہیں تم پر تمہارے نبی کی آل کی محبت لازم ہے کیونکہ یہ تم پر اللہ کا حق ہے۔ ([69])

پیغمبر اسلام ؐ فرماتے ہیں: مَعۡرِفَۃُ آلِ مُحَمَّدٍ بَرَاءَۃٌ مِنَ النَّارِ و حُبُّ آل محمد جوازٌ علی الصراط وَ الۡوَلایۃُ لِآلِ محمد أمانٌ مِنَ الۡعَذَابِ۔([70])

حضورؐ فرماتےہیں آل محمد کی معرفت آگ سے رہائی ہے اور آل محمد کی محبت صراط پر گزرنے کا پروانہ ہے اور آل محمد کی ولایت، عذاب سے امان کا (موجب ہے)۔

امام صادق علیہ السلام نے اپنے والد گرامی سے اور انہوں نے امام زین العابدین ؑ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: رسول خداؐ ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے پاس علی،فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلام بھی تھے تو آپؐ نے فرمایا:قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ بشیر مبعوث کیا ہے روئے زمین پر مخلوق میں سے کوئی بھی خدا کے نزدیک ہم سے محبوب تر اور گرامی تر نہیں ہے خدا نے اپنے ناموں میں سے میرے نام کو مشتق کیا وہ محمود ہے اور میں محمد ہوں، اے علی آپ کے لیے اس نے اپنے ناموں سے نام مشق کیا ہے وہ اعلیٰ ہے اور تو علی ہے۔ اے حسن تیرے لیے اس نے اپنے ناموں سے نام مشتق کیا ہے وہ محسن ہے اور تو حسن ہے ، اے حسین تیرے لیے اس نے اپنے ناموں سے نام مشتق کیا ہے وہ ذو الاحسان ہے اور تو حسین ہے ، اے فاطمہ تیرے لیے اس نے اپنے ناموں سے تیرے نام کو مشتق کیا ہے وہ فاطر ہے اور تو فاطمہ ہے پھر فرمایا: اے اللہ میں تجھ کو گواہ کرکے کہتا ہوں میں ہر اس شخص سے صلح رکھتا ہوں جو ان سے صلح رکھے اور ہر اس شخص سے جنگ کرتا ہوں جو اِن سے جنگ کرے، جو ان سے محبت کرے میں ان سے محبت رکھتا ہوں اور جو اِن سے بغض رکھے میں اس سے بغض رکھتا ہوں جو اِن سے عداوت رکھے میں اس کا دشمن ہوں جو ان سے دوستی کرے میں اس کا دوست ہوں کیونکہ یہ مجھے سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔([71])

شیخ صدوق فرماتے ہیں سادات کے بارےمیں ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ وہ آل رسول ہیں اور ان کی مودّت واجب ہے کیونکہ یہ اجر رسالت ہے اللہ پاک نے فرمایا { قُلْ لا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى} آپ کہہ دیجئیے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقرباء سے محبت کرو سادات پر صدقہ حرام ہے کیونکہ یہ لوگوں کے ہاتھوں کی میل کچیل ہے البتہ سادات ایک دوسرے کے صدقات لے سکتےہیں زکوۃ کے بدلے خمس ان کے لیے حلال ہے کیونکہ یہ زکوۃ لینے سے منع کیے گئے ہیں۔

اور ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ جو سادات میں سے گنہگار ہو اس پر دوہرا عقاب ہے (ایک تو عمل برا کرنے کی وجہ سے اور دوسرا عقاب اس لیے ہے کہ سید ہوکر برا عمل کرتا ہے) اور جو اِن میں نیک ہو اس کے لیے دوہرا ثواب ہے۔

اور سادات ایک دوسرے کے کفو ہیں چونکہ حضورؐ نے جب حضرت ابو طالبؑ کے بیٹوں علی ؑ اور جعفرطیار ؑ کی طرف نگاہ کی تو فرمایا ہماری بیٹیاں ہمارے بیٹوں کے لیے ہیں اور ہمارے بیٹے ہماری بیٹیوں کے لیے ہیں([72])۔

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں جو شخص اللہ کے دین کی مخالفت کرے اور اللہ کے دشمنو ں کو دوست رکھے یا اولیاء اللہ (یعنی ائمہ طاہرینؑ) سے عداوت رکھے ایسے شخص سے براءۃ رکھنا واجب ہے خواہ وہ کوئی بھی ہو جس قبیلہ سے بھی ہو۔ ([73])

شیعہ کا عقیدہ یہ ہے کہ محمد و آل محمد علیہم السلام کے قاتلوں سے بیزاری کرنا واجب ہے نیز ان لوگوں سے جنہوں نے محمد و آل محمد علیہم السلام پر ظلم کیا ہے ۔

خلاصہ یہ کہ محمد و آل محمد علیہم السلام کے دشمنوں پر تبرّا اور لعنت کرنے کا عقیدہ رکھنا یہ اہم واجبات سے ہے خواہ وہ دشمن کوئی بھی ہو۔ جو محمد وآل محمد علیہم السلام کے دشمنوں پر تبرّے کا منکر ہے وہ مذہب حقہ شیعہ سے خارج ہے بلکہ اسلام سے خارج ہے۔



[1]۔الکلم الطیب، ص ۶۸۳۔

[2]۔سورہ معارج، آیت ۳۔ ۴۔

[3]۔سورہ زلزال، آیت آخر۔

[4]۔سورہ مومنون، آیت ۱۱۵۔

[5]۔سورہ حج، آیت ۷۔

[6]۔سورہ واقعہ ، آیت ۴۹۔ ۵۰۔

[7]۔سورہ تغابن، آیت ۷۔

[8]۔سورہ بنی اسرائیل، آیت ۵۱۔

[9]۔سورہ قیامت،آیات ۳۶ تا ۴۰۔

[10]۔سورہ عادیات، آیت ۹۔

[11]۔سورہ یس، آیت ۵۱۔ ۵۲۔

[12]۔سورہ یس، آیت ۶۵۔

[13]۔سورہ یس، آیت ۷۸۔ ۷۹۔

[14]۔رسالہ اعتقادات، علامہ مجلسی۔

[15]۔مسلمات سے ہے کہ مرنے والا پیغمبر اسلام ﷺ اور ائمہ معصومین ؑ بالخصوص امیر المومنین علیہ السلام کو دیکھے گا لیکن اس رؤیت اور مشاہدہ کی کیفیت کے بارے میں علماء اختلاف رکھتے ہیں۔ کہ آیا رؤیت جسد اصلی کی ہوگی یا مثالی کی یا غیرہما؟ اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ مقام میں رؤیت اور مشاہدہ کے بارے میں اجمالاً روایات متواتر ہیں اور مسئلہ عند الشیعہ مسلمات سے ہے لہذا انکار تو کیا جاسکتا نہیں اور مقام میں علماء کے لیے جو پیچیدگی ہے وہ یہ کہ ایک جسم آن واحد میں ، ہزاروں مرنے والوں کے پاس کیسے آسکتا ہے لہذا وہ جسم مثالی وغیرہ کے قائل ہوئے ہیں۔ تو اس سوال یعنی آن واحد میں ائمہ طاہرین ؑ ہزاروں مرنے والوں کے پاس کیسے حاضر ہوسکتے ہیں کے جواب میں دانشمند جلیل سید عبد الحسین طیب اپنی کتاب الکلم الطیب کے ص ۴۵۴ پر تحریر کرتے ہیں کہ یہ خاندان حق تعالیٰ کی تمام صفات کے بنحو اتم و اکمل مظہر ہیں خدا کی صفات سے ایک احاطہ بھی ہے اور یہ بزرگواراان، اس صفت کے بھی مظہر ہیں اپنے وجودی سِعہ کے ساتھ سب امکانی جہانوں پر احاطہ رکھتے ہیں اور سب جگہوں پر حاضر وناظر ہیں اور یہ معنی زندگی اور زندگی کے بعد بلکہ عالم نورانیت میں بھی ان کے لیے ثابت ہے اور بہت سی آیات، روایات، زیارات اور دعاؤں کے جملوں سے استفادہ ہوتا ہے۔ جیسے آیہ شریفہ {قل اعملوا فیسری اللہ عملکم و المؤمنون} (سورہ توبہ، آیت ۱۰۵) اور پیغمبر کہہ دیجئے کہ تم لوگ عمل کرتے رہو کہ تمہارے عمل کو اللہ،رسول اور صاحبان ایمان یعنی ائمہ طاہرین سب دیکھ رہے ہیں۔ اور جیسے {فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلاءِ شَهِيدًا}(سورہ نساء، آیت ۴۱) اس وقت کیا ہوگا جب ہم ہر امت کو اس کے گواہ کے ساتھ بلائیں گے اور پیغمبر آپ کو ان سب کا گواہ بنا کر بلائیں گے۔

معلوم ہے کہ رؤیت اور شہادت کی شرط حضور ، (حاضر ہونا) ہے۔ نمازوں کے سلام میں بطور مخاطب کہتے ہو السلام علیک ایھا النبی و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ زیارت میں پیغمبرؐ اور ائمہ طاہرین ؑ کو دور یا نزدیک سے مخاطب کے طور پر سلام دیتے ہو، مخاطب کے طور پر سلام دینے کی شرط حضور (حاضر ہونا) ہے۔ اسی طرح اپنے توسلات اور استغاثہ میں ان کے ساتھ بطور مخاطب التجاء کرتے ہو امام رضا ؑ کی زیارت میں اور داخل ہونے کے لیے اجازت میں اس معنی میں شہادت دیتے ہو اشہد انک تسمع کلامی و تری مقامی و تردّ جوابی ، میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ (امام رضاؑ) میرے کلام کو سن رہے ہو اور مجھے دیکھ رہے ہو میرےسلام کا جواب دیتےہو۔

کہا جاسکتا ہے کہ یہ مطلب تواتر معنوی یا اجمالی رکھتا ہے منتہی یہ کہ ہماری آنکھوں کے سامنے دنیاوی حجاب ہے مرتے وقت یہ حجاب (پردہ) اٹھالیا جاتا ہے۔ انتہی کلامہ۔

جزاہ،بہت پیارا اور متین جواب دیا ہے۔درحقیقت یہ اللہ جل شانہ کی قدرت نمائی ہے۔ اور وہ علی کل شی قدیر ہے حضرات معصومین علیہم السلام اپنے نوری وجود کے ساتھ آن واحد میں ہر جگہ حاضر ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ بعض علماء نے مقام میں معصومین ؑ کے متعدد مقامات پر حضور کے مسئلہ کا یہی جواب دیا ہے کہ نوری وجود پر کوئی محذور لازم نہیں آتا۔ نیز صاحب الکلم الطیب اپنی کتاب کے ص ۶۵۵ پر مرقوم فرماتے ہیں کہ مخفی نہ رہے کہ سِعہ اور احاطہ کا یہ مرتبہ (کہ تمام عوالم امکانیہ کا احاطہ رکھنا) محمد و آل محمد کے خصائص سے ہے لیکن دوسرے انبیاء سعہ اور ضیق کے حوالے سے مراتب میں مختلف ہیں لیکن سعہ کا یہ مرتبہ نہیں رکھتے لہذا زیارت میں بطور غیاب پڑھتے ہو: السلام علی آدم صفوۃ اللہ السلام علی نوح نبی اللہ تا السلام علی علی عیسی روح اللہ، لیکن پیغمبر اکرم ﷺ اور اسی طرح ائمہ ہدی علیہم السلام کے لیے بطور تخاطب پڑھتے ہو: السلام علیک یا رسول اللہ السلام علیک یا امیر المومنین تا آخر۔ چنانچہ حضرت معصومہ اوردوسری زیارات میں ہے۔ انتہی کلامہ

چنانچہ اسم اعظم کے تہتر حروف والی روایات کہ جس میں ہے کہ خدا نے بہتر کا علم محمد و آل محمد کو عطا فرمایا ہے، مذکورہ مطلب پر محکم دلیل ہے چونکہ محمد و آل محمد ؐ اللہ کی پوری مخلوق پر حجت خدا ہیں۔

قابل غور بات: صاحب الکلم الطیب لکھتے ہیں کہ کسی روایت میں حضور (حاضر ہونے) کا لفظ یامحتضر مرنے والے کے پاس، آنے کا لفظ نہیں ہے بلکہ وہ دیکھتے ہیں یا پہچانتے ہیں یا اس طرح کی تعبیر آئی ہے۔ حالانکہ روایت میں أتاہ نبی اللہ و أتاہ علی و أتاہ جبرئیل و أتاہ ملک الموت کے الفاظ نقل ہوئے ہیں اللہ کے نبی کے آنے کا ذکر ہے اور اسی طرح علی ؑ کے آنے کا ذکر ہے نیز جبرئیل اور ملک الموت کے آنے کا ذکر ہے۔

[16]۔مناقب خوارزمی، ص۱۰۹۔

[17]۔کافی، ۳/ ۱۳۴؛ بحار الانوار، ۳۹/ ۲۳۹۔

[18]۔بعض روایات کا مستفاد یہ ہے کہ قبر میں بھی حضرت علی ؑ حاضر ہوتے ہیں کما فی الامالی للشیخ الصدوق المجلس ۸۳، ص ۴۵۰ اور تفسیر امام حسن عسکری ؑ کے ص ۱۷۵ پر ہے کہ پیغمبر اسلام ؐ حضرت علی ؑ ، امام حسن اور امام حسین علیہما السلام اور ان کے بعض خاص اصحاب بھی قبر میں حاضر ہوتے ہیں۔

[19]۔بحار الانوار، ج۷، ص ۲۷۳۔

[20]۔حق الیقین، ص ۱۷۶ (للسید الشبرّ)۔

[21]۔سورہ آل عمران، آیت ۱۳۳؛سورہ نجم، آیات ۱۳۔ ۱۵ و آیات دیگر۔

[22]۔ بحار الانوار، ج۷، ص ۲۶۰۔

[23]۔ بحار الانوار، ج۷، ص ۲۶۷۔

[24]۔سورہ شوریٰ ، آیت ۲۳۔

[25]۔بحار الانوار، ، ج۷، ص ۲۶۵۔

[26]۔ بحار الانوار، ، ج۷، ص ۲۵۸؛ مناقب علی بن ابی طالب لابن المغازلی، ص ۳۴۶؛ کفایۃ الطالب، ص ۳۲۴ عن ابی ذر؛ فرائد السمطین، ج۲، ص ۳۵۱ و کتب دیگر۔

[27]۔بحار الانوار، ج۷، ص ۲۵۹۔

[28]۔مقتل الخوارزمی، ص ۷۴۔

[29]۔سورہ تکاثر، آیت ۸۔

[30]۔بحار، ج۷، ص ۲۶۶؛ینابیع المودۃ، ص ۱۳۱ ، طبعہ حیدریہ؛شواہد التنزیل، ج۲، ص ۲۶۸۔

[31]۔بحار، ج۷، ص ۲۷۲۔

[32]۔صافات، آیت ۲۴۔

[33]۔صواقع محرقہ، ص ۸۹؛تفسیر روح المعانی، ج۲۳، ص ۲۸؛کفایۃ الطالب، ص ۲۴۷؛ تذکرۃ الخواص، ص ۱۷؛ فرائد السمطین، ج۱، ص ۷۹؛ درر السمطین، زرندی حنفی، ص ۱۰۹۔

[34]۔و بینھما حجاب و علی الاعراف رجال یعرفون؛ اور ان کے درمیان پردہ ڈال دیا جائے گا اور اعراف پر کچھ لوگ ہوں گے جو سب کو ان کے چہروں سے پہچان لیں گے۔ (سورہ اعراف، آیت ۴۶)۔

[35]۔اعراف کے بارے میں اور آیت میں رجال سے کون مراد ہیں کی تفصیل کے لیے بحار الانوار، ج۸، باب ۲۵ (اعراف و اھلھا) کی طرف رجوع فرما سکتے ہیں۔

[36]۔مناقب علی بن ابی طالب لابن المغازلی، ص ۵۶ و کتب دیگر۔

[37]۔بحار الانوار، ج۷، ص ۳۳۱۔ ۳۳۲۔

[38]۔صواعق محرقہ، ص ۱۲۶۔

[39]۔مناقب علی بن ابی طالب لابن المغازلی، ص ۱۲۰۔

[40]۔ذخائر العقبیٰ ص ۷۱؛ فرائد السمطین، ج۱، ص ۲۹۲؛ المناقب خوارزمی، ص ۳۲۰؛ الریاض النظرۃ فی مناقب عشرہ مبشرہ، ص ۱۳۷ باب مناقب علی ؑ و کتب دیگر۔

[41]۔سورہ زمر، آیت ۴۴۔

[42]۔سورہ سجدہ، آیت ۴۔

[43]۔سورہ بقرہ، آیت ۲۵۵۔

[44]۔سورہ یونس، آیت ۳۔

[45]۔سورہ سبا، آیت ۲۳۔

[46]۔سورہ انبیاء، آیت ۲۸۔

[47]۔سورہ نجم، آیت ۲۶۔

[48]۔سورہ طہ، آیت ۱۰۹۔

[49]۔سورہ بنی اسرائیل، آیت ۷۹۔

[50]۔بحار الانوار، ج۸، ص ۳۷۔

[51]۔بحار الانوار، ج۸، ص ۳۸۔

[52]۔بحار الانوار، ج۸، ص ۵۸۔

[53]۔بحار الانوار، ج۸، ص ۳۷۔

[54]۔بحار الانوار، ج۸، ص ۵۹۔

[55]۔سورہ مدثر، آیت ۴۸۔

[56]۔سورہ مدثر، آیات ۴۳ تا ۴۶۔

[57]۔سورہ بقرہ، آیت ۴۸۔

[58]۔سورہ نساء، آیت ۶۴۔

[59]۔سنن ترمذی، ۲، ص ۳۰۶؛ خصائص امیر المومنین (نسائی) ص ۱۲۳؛ مسند احمد؛ تاریخ بغداد۹، ص ۲۳۱؛ حلیۃ الاولیاء، ج۵، ص ۷۱۔

[60]۔مخفی نہ رہے کہ جنت میں سوائے حضرت ابراہیم ؑ کے سب جوانی کی حالت میں ہوں گے لہذا یہ روایت کہ فلاں فلاں جنت کے بوڑھوں کے سردار ہوں گے یہ روایت جعلی ہے۔

[61]۔کفایۃ الطالب، ص ۳۴۲؛ تاریخ بغداد، ج۱۰، ص ۲۳۰؛ کنز العمال، ج۷، ص ۱۰۸۔

[62]۔ کفایۃ الطالب ص ۳۴۱؛ تاریخ ابن عساکر، ۴، ص ۲۰۶؛ فرائد السمطین۲، ص ۹۹،مخفی نہ رہے کہ یہ روایت انس صحابی سے بھی مروی ہے ترجمہ الامام الحسن من تاریخ دمشق، ص ۸۲ ، و کذا عن غیرہ ایضا۔ و کتب دیگر۔

[63]۔نور الابصار ص ۱۶۴، باب مناقب علی بن ابی طالب۔

[64]۔صحیح بخاری، باب مناقب فاطمہ علیہا السلام؛ فتح الباری، شرح صحیح بخاری، کتاب فضائل الصحابہ، باب ۲۹، مناقب فاطمۃ علیہا السلام، ج۷، ص ۱۳۱؛ (و با اضافہ سنن ترمذی ۲/ ۲۰۷؛ مسند احمد ۵/ ۳۹۱؛کفایۃ الطالب ۴۲۲؛حلیۃ الاولیاء ۴/ ۱۹۰؛ کنز العمال ۶/ ۲۱۷؛ مستدرک علی الصحیحین ۳/ ۳۸۱۔

[65]۔حضرت مریم ؑ اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار تھیں اور حضرت فاطمہ علیہاالسلام سب جہانوں کی عورتوں کی سردار ہیں۔

[66]۔سورہ شوری، آیت ۲۳۔

مخفی نہ رہے کہ ابن عباس اور قتادہ سے مروی ہے کہ سورہ شوریٰ کی یہ آیت مودت۔ آیت نمبر ۲۳۔ اور اس کے بعد والی تین آیات مدنی ہیں (اگرچہ یہ سورہ مکی ہے) اس چیز کو اہل سنت کے کئی ایک مفسرین نے اپنی تفاسیر میں ذکر کیا ہے۔ تفسیر فتح القدیر ج۴، ص ص ۷۴۶ و کتب دیگر۔

نیز مخفی نہ رہے کہ آیت مودت نسخ بھی نہیں ہوئی جیسا کہ بغوی نے اپنی تفسیر میں کہا ہے۔ معالم التنزیل فی التفسیر و التاویل، ج۵، ص ۴۹، ہذا اولاً۔

وثانیاً، اگر آیت مودت نہ بھی ہوتی تو تب بھی عترت و اہل بیت علیہم السلام کی مودت لازم تھی جیسا کہ حدیث ثقلین اور دوسری کئی ایک حدیثوں میں ہے۔

و ثالثاً ، اگر آیت مودت نسخ ہوگئی تھی تو امام سجاد علیہ السلام، شام میں اپنی اسیری کے دوران شامی شخص سے اپنی مودت پر اس آیت سے تمسک نہ کرتے حالانکہ انہوں نے اس آیت کا حوالہ دیا ہے۔ تفسیر ابن کثیر دمشقی، ج۴، ص ۱۶۶۸ و کتب دیگر۔

[67]۔معجم کبیر ۳/ ۴۷؛ فضائل الصحابہ لابن حنبل،۲/ ۶۶۹؛ صواعق محرقہ، تفسیر کشاف ۳/ ۴۰۲؛ درمنثور سیوطی ۷/ ۳۴۸ ؛ شواہد التنزیل، ج۲، ص ۱۳۱؛ مناقب علی بن ابی طالب لابن المغازلی، ص ۳۳۹ و کتب دیگر۔

[68]۔الکافی، ۱/ ۴۱۳؛ المحاسن، ۱/ ۲۴۱۔

[69]۔غرر الحکم۔

[70]۔فرائد السمطین ۲/ ۲۵۷ و کتب دیگر۔

[71]۔معانی الاخبار (صدوق) ص ۵۵۔

[72]۔یہی وجہ ہے کہ حضرت علی ؑ کی سب بیٹیوں کی شادیاں اپنے ہی خاندان میں ہوئی ہیں۔

[73]۔رسالہ اعتقادات، شیخ صدوق ، باب الاعتقاد فی العلویۃ۔

© COPYRIGHT 2020 ALJAWAAD ORGAZNIZATION - ALL RIGHTS RESERVED
گروه نرم افزاری رسانه