پہلا باب
توحید
معرفت کے لازمی ہونے کے بیان میں
اصول دین کی معرفت اور اس پر اعتقاد رکھنا ہر مکلف (انسان) پر ضروری ہے اس سلسلے میں سُستی اور کوتاہی عذاب ابدی کا موجب بن جائے گا۔
تین طریقوں سے معرفت حاصل کرنا ممکن ہے:
پہلا طریقہ: عقل، پھر عقل کے ذریعہ معرفت کا اثبات دو طریق سے ثابت ہوتا ہے ۔ ۱۔ قاعدہ دفع ضرر محتمل ، ۲۔ قاعدہ شکر منعم۔
دوسرا طریقہ: قرآن مجید
تیسرا طریقہ: فرامین پیامبر و آئمہ طاہرین علیہم السلام۔
بیان قاعدہ دفع ضرر محتمل: جب بھی انسان کسی چیز کے مجہول ہونے کے بارے میں ضرر کا احتمال بھی دے انسان کی عقل حکم کرتی ہے کہ وہ تحقیق کرے جب تک ضرر سے مطمئن نہ ہوجائے آرام نہ کرے اگر انسان احتمال دے کہ اس شربت کے پیالہ میں زہر ہے کہ نوش کرنے کے ساتھ وہ اسے ختم کر دے گی انسان کی عقل یہ کہتی ہے کہ جب تک اس بارے میں تحقیق نہ کرے اس شربت کو نہ پیئے اگر کوئی بچہ بھی یہ خبر دے کہ آج میں نے آپ کے کمرے میں سانپ دیکھا ہے انسان کی عقل اسے مجبور کرتی ہے کہ جب تک سانپ کے بارے میں تحقیق نہ کرے اس کمرے میں نہ سوئے۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں نے فرمایا ہے کہ اس دنیا کا خدا ہے اور اس خدا کی طرف سے ہی پیغمبر آئے ہیں جو بھی اسے اور ا س کے پیغمبروں کی معرفت حاصل کرکے ان کے دستورات پر عمل کرے گا وہ آخرت میں نعمات الٰہی سے متنعم ہوگا۔ اور جو بھی ان کو نہیں مانے گا وہ آخرت میں سخت عذاب میں مبتلاء ہوگا اتنے پیغمبروں کے فرمان سے (نعوذ باللہ) اگر کسی کو یقین یا گمان نہیں آتا تو کم سے کم سچائی کا احتمال تو دے سکتا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ ایسا ہی ہو۔
لذا ہر عقل مند انسان پر ضروری ہے کہ وہ مبدأ و معاد کے بارے میں تحقیق کرے اور اپنے ربّ کی معرفت حاصل کرے۔
بیان قاعدہ شکر منعم: جب بھی کوئی کسی پر احسان کرے تو عقل کہتا ہے کہ اس کا شکریہ ادا کرنا ضروری ہے۔ اور شکریہ ہر کسی کے حال کے مناسب ہونا چاہیے۔
مزید وضاحت: فرض کریں اگر کوئی شخص ہر روز آپ کے دروازہ کے پیچھے چینی، آٹا وغیرہ کو ہدیے اور تحفے کی صورت میں رکھ کر چلا جاتا ہو تو آپ کی عقل آپ کو مجبور کرے گی کہ اس محسن کو پہچاننا چاہیے کہ یہ کون ہے جو ہر روز تحفہ تحائف ہمارے دروازے پر رکھ کر چلا جاتا ہے اس کو پہچاننا چاہیے اور اس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ خداوند متعال قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ: {وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوهَا}([1])
اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو اس کو شمار نہیں کرسکتے۔
لذا عقل حکم کرتی ہے کہ منعم (انعام کرنے والے) کا شکر ادا کرنا چاہیے اور شکر بغیر معرفت کے نہیں ہوسکتا۔ تو اس جہت سے بھی ضروری ہے کہ ہم باری تعالی کی معرفت حاصل کریں کہ کس نے ہمیں خلق کیا اور بے شمار نعمات عطا کی ہیں وہ کون ہے اس کی صفات کیاہیں اور اس کے دستورات کیا ہیں؟
معرفت کا دوسر اطریقہ، قرآن مجید: قرآن مجید کی بہت سی آیات ہیں جو معرفت کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں۔ ان میں سے یہ آیہ شریفہ بھی ہے: {فَاعْلَمْ أَنَّهُ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ}([2]) پس جان لے اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں ہے۔ مخفی نہ رہے کہ اعلم صیغہ امر ہے اور امر کی دلالت وجوب پر ہے۔
معرفت کا تیسرا طریقہ: فرامین معصومین علیہم السلام ہیں جو اِن موارد میں ہیں حضور ؐ سے اس آیہ شریفہ { إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأرْضِ وَاخْتِلافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِّأولِي الألْبَابِ}([3])بے شک زمین و آسمان کی خلقت دن رات کی آمد و رفت میں صاحبان عقل کے لیے قدرت خدا کی نشانیاں ہیں۔ کے بارے میں حدیث نقل ہوئی ہے کہ آپؐ نے فرمایا ویل ہو اس شخص کے لیے جو اس آیت کو تلاوت تو کرے لیکن اس میں تدبر نہ کرے۔
چونکہ یہ آیت آسمانوں اور زمین کی خلقت اور قدرت و حکمت کے آثار پر مشتمل ہے جس سے اس کے صانع کے وجود اور اس کی قدرت و حکمت پر دلالت کر رہی ہے لذا حضور ﷺ نے ایسے شخص کی جو کہ اس آیہ کی تلاوت میں تدبر نہ کرے مذمت فرمائی ہے کہ اس آیت کا قاری، خالق کی معرفت کیوں نہی کرتا اور اس کی قدرت و عظمت کے سامنے تسلیم کیوں نہیں ہوتا۔
اثبات صانع
معروف ہے کہ دین اسلام،خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے نہیں آیا بلکہ خدا کی توحید کو ثابت کرنے کے لیے آیا ہے ۔
چونکہ اللہ نے انسان کو عقل جیسی عظیم نعمت عطا فرمائی ہے اگر انسان اس دنیا میں طرح طرح کی مخلوقات پر نگاہ کرے اور اس میں غور و فکر کرے تو آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ ان کا کوئی خالق ہے کیونکہ کوئی مخلوق، بغیر خالق کے خودبخود خلق نہیں ہوسکتی، کوئی مصنوع بغیر صانع کے نہیں بن سکتا لذا انسان کی عقل اسے اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور کرے گی کہ کوئی ذات ہے جس نے اپنی قدرت کاملہ سے ہر چیز کو خلق کیا ہے۔
منقول کہ کسی نے ایک بڑھیا سے جو کہ چرخہ کات رہی تھی سوال کیا کہ تو نے اپنے ربّ کو کیسے پہچانا ہے تو اس نے کہا میں نے اپنے ربّ کو اس چرخہ سے پہچاناہے، فَاِنّی حَرّکتُہ تَحرَّک واِن لَم اُحَرِّکہُ سَکَنَ، جب میں اس چرخہ کو حرکت دیتی ہوں یہ حرکت کرنے لگتا ہے جب حرکت نہیں دیتی تو یہ رُک جاتا ہے جب یہ چھوٹا سا چرخہ بغیر کسی چلانے والے کے نہیں چلتا تو پوری کائنات کا نظام بغیر کسی ناظم اور مدّبر کے کیسے چل سکتا ہے؟ جب حضور ﷺنے اس بڑھیا کا استدلال سنا تو بہت خوش ہوئے اور فرمایا: علیکم بِدِینِ العجائز، بوڑھی عورتوں والے دین کو لازم پکڑو یعنی دلیل کے ساتھ دین کو اختیار کرو۔
نیز منقول ہے کہ ایک بادشاہ تھا جو کہ خدا کے وجود کا منکر تھا اس بادشاہ کا وزیر موحّد تھا۔ بادشاہ کو خدا شناسی پر استدلال پیش کرتا تو اس کا کچھ اثر بادشاہ پر نہ ہوتا تھا اس نے بادشاہ کو بتائے بغیر بیابان میں خوبصورت محل تعمیر کروایا اس میں طرح طرح کے پھول لگوائے ایک دن بادشاہ کو اس جگہ کے دکھانے کی غرض سے اسے وہاں لے گیا جب بادشاہ نے خوبصورت محل دیکھا تو کہا اس کا معمار اور نقشہ بردار کون ہے؟ وزیر نے کہا: بادشاہ صاحب اس محل کو کسی نے نہیں بنایا ہم اچانک ادھر آئے تو یہ محل تیار ہوگیا۔
بادشاہ نے کہا:کیا میرا مذاق اُڑا رہا ہے کیا ممکن ہے کہ دنیا میں کوئی چیز خودبخود بن جائے؟
وزیر نے فوراً کہا: اگر یہ چھوٹا سا محل بغیر کسی بنانے والے کے نہیں بن سکتا تو یہ پوری دنیا جو اس عظمت کے ساتھ ہے جس میں آسمان ، ستارے، زمین ، دریا اور طرح طرح کی موجودات ہیں، یہ پوری دنیا بغیر خالق کے کیسے بن گئی؟
غافل بادشاہ کی فطرت نے اسے بیدار کردیا اوروزیر کو آفرین کہا اور خدا شناس ہوگیا۔
اگر انسان کچھ بھی غور و فکر سے کام لے تو کائنات کا ذرا ذرا خالق یکتا کا پتہ دیتا ہے کہ کائنات کا نظام چلانے والا کوئی موجود ہے اس بارے میں کسی مزید استدلال کی ضرورت نہیں ہے لیکن اس کے باوجود علماء متکلمین نے وجود خدا اور اثبات توحید کے بارے میں کئی ایک عقلی اور نقلی برہان اور دلائل اپنی کتب میں تحریر فرمائے ہیں۔
خدا کے وجود کے اثبات پر دانشمندوں نے جو برہان پیش کیے ہیں ان میں سے بعض کو ذکر کیا جاتا ہے: ۱۔ برہان حدوث ۲۔ برہان وجوب و امکان
۳۔ برہان نظم ۴۔ برہان فطرت۔
برہان حدوث:ہر حادث، مُحدِث کا محتاج ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ کوئی قدیمی صانع، (جو خود سبب اور موجد سے بے نیاز ہو) موجود ہو یہ وہی طریقہ ہے جس کو حضرت ابراہیم خلیل نے صانع کے وجود پر استدلال کیا تھا۔ چنانچہ قرآن مجید نے اس کو یوں بیان فرمایا ہے:{ فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأَى كَوْكَبًا قَالَ هَذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لا أُحِبُّ الآفِلِينَ ۔فَلَمَّا رَأَى الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هَذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَئِنْ لَمْ يَهْدِنِي رَبِّي لأكُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّينَ ۔فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَذَا رَبِّي هَذَا أَكْبَرُ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِمَّا تُشْرِكُونَ}([4])
پس جب ان پر رات کی تاریکی چھائی اور انھوں نے ستارہ کو دیکھا تو کہا کہ کیا یہ میرا رّب ہے پھر جب وہ غروب ہوگیا تو انہوں نے کہا کہ میں ڈوب جانے والے کو دوست نہیں رکھتا پھر جب چاند کو چمکتا دیکھا تو کہا کہ پھر یہ ربّ ہوگا پھر جب وہ بھی ڈوب گیا تو کہا کہ اگر پروردگار ہی ہدایت نہ دے گا تو میں گمراہوں میں ہوجاؤں گا پھر جب چمکتے ہوئے سورج کو دیکھا تو کہا کہ پھر یہ خدا ہوگا کہ یہ زیادہ بڑا ہے لیکن جب وہ بھی غروب ہوگیا تو کہا کہ اے قوم میں تمہارے شرک سے بری اور بیزار ہوں۔([5])
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ستارہ چاند اور سورج کے ڈوبنے سے ، صانع کے وجود پر استدلال کیا ہے کیونکہ ستارہ وغیرہ کا ڈوبنا یہ حرکت کو مستلزم ہے اور حرکت کا لازمہ،حادث ہونا ہے۔ معلوم ہوا کہ ستارہ ، چاند، سورج یہ حادث چیزیں ہیں ان کا بنانے والا کوئی اور ہے اور وہی خدا ہے۔
برہان وجوب و امکان: یہ حکماء کا طریقہ ہے کہ خود وجود اور اس کی تقسیم واجب اور ممکن کو دیکھا جائے تو اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کوئی واجب الوجود ہو جس سے سب ممکنات، وجود میں آئیں۔ بعض علماء فرماتے ہیں کہ شاید خداوند متعال کے قول کا اشارہ اسی طریقہ کی طرف ہو چنانچہ ارشاد فرماتا ہے: { أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ}([6])
کیا پروردگار کے لیے یہ بات کافی نہیں ہے کہ وہ ہر شی کا گواہ اور سب کا دیکھنے والا ہے۔
برہان نظم: واضح ترین دلائل و براہین میں سے، برہان نظم ہے اس دنیا میں جہاں تک انسان کی فکر کام کرسکتی ہے تمام موجودات میں، نظم و دقت اور مکمل ہماہنگی مشاہدہ ہوتی ہے جس کا دنیا کے دانشمندوں نے اپنی تحقیقات میں اعتراف کیا ہے اور یہ بات بھی روز روشن کی طرح آشکار ہے کہ کوئی نظم بھی بغیر ناظم کے محقق نہیں ہوتا تو معلوم ہوا کہ کائنات کا کوئی ناظم ہے۔
برہان فطرت: خدا شناسی پر بہترین راہ فطرت و دل ہے راہ فطرت سے مراد ایک باطنی شعور اور اندرونی کشش ہے جو کہ ا نسان کو خدا کی طرف راہنمائی کرتی ہے۔
یہ فطرت معنوی، ہر انسان میں پائی جاتی ہے ہاں کبھی تاریک حجاب (تاریک پردے) ، اس فطرت کے ظاہر ہونے سے مانع ہوجاتے ہیں انبیاء کی بعثت اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کا آنا انہی حجابوں (پردوں) کو دور کرنے اور فطرت الٰہی میں رشد دینے کی وجہ سے ہے چنانچہ خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے:
{ فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ}([7]) آپ اپنے رُخ کو دین کی طرف رکھیں اور باطل سے کنارہ کش رہیں کہ یہ دین وہ فطرت الٰہی ہے جس پر اللہ نے انسانوں کوپیدا کیا ہے اور خلقت الٰہی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی ہے یقیناً یہی سیدھا اور مستحکم دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
زرارہ نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے خدا کے قول فطرۃ اللہ ۔۔۔ کے بارے میں پوچھا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: خدا نے سب کو فطرت توحید پر خلق کیا ہے۔ ([8])
عن زرارۃ قال سألت أبا عبد اللہ علیہ السلام عن قول اللہ عزوجلّ (فطرۃ اللہ الّتی فطر الناس علیہا) قال فطرہم جمیعاً علی التوحید۔
امام رضا علیہ السلام اپنے آباء طاہرین کے واسطہ سے سید ساجدین علی بن الحسین علیہ السلام سے قول خدا (فطرۃ اللہ التی فطر الناس علیہا) کے بارے میں نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا (اس سے مراد یہ ہے) لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ علیٌ امیرالمومنین الی ہہنا التوحید۔([9])
مخفی نہ رہے کہ اوپر والی روایت میں آیت کے ایک مصداق توحید کو بیان کیا گیا ہے اور اس روایت میں آیت کے دوسرے مصداق، ولایت کو بیان کیا گیا ہے تو ان دو روایتوں میں کوئی منافاۃ نہیں ہے۔
رسول خدا ﷺ سے منقول ہے کہ آپؐ نے فرمایا ہر مولود فطرت پر پیدا ہوتا ہے یہاں تک کہ اس کے ماں باپ اسے یہودی بنادیتے ہیں یا نصرانی۔([10])
تویہ تربیت کا اثر ہے ورنہ ہر بچہ فطرت اسلام پر پیداہوتا ہے۔ ہاں کبھی غلط ماحول، غلط تریت اور غلط پروپیگنڈہ اور گناہ کی وجہ سے اس فطرت پر حجاب طاری ہوجاتے ہیں۔
فطرت کا ظہور
آیات و روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ جب انسان مضطر ہوجائے اور ہر طرف سے اس پر مایوسی چھاجائے بعبارۃ دیگر ما سِوی اللہ سے منقطع ہوجائے تو ا س وقت ہر انسان خدا کی طرف توجہ کرتا ہے فطرتاً اپنے آپ کو خدا کی طرف محتاج پاتا ہے اگر یہ حالت پیدا ہوجائے تو انسان اور اس کے معبود کے درمیان فاصلہ نہیں ہے۔
منقول ہے کہ ایک شخص نے امام جعٖفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ مجھے خدا کی پہچان کروائیں کیونکہ اہل مجادلہ نے مجھ سے بہت باتیں کی ہیں اور مجھے انہوں نے سرگردان کردیا ہے ۔امام علیہ السلام نے فرمایا: آیا تا حال کبھی کشتی پر سوار ہوا ہے؟ کہا: جی ہاں، فرمایا کبھی کشتی کے ساتھ کوئی واقعہ بھی پیش آیا ہے کہ وہاں اورکوئی کشتی بھی موجود نہ ہو اور تیرنے والا جو تجھے نجات دے وہ بھی موجود نہ ہو،کہا: جی ہاں ایسا واقعہ پیش آیا ہے۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: آیا اس وقت کوئی احساس کیا ہے کہ کوئی طاقت ہے جو تجھے اس مصیبت سے نجات دے دے ۔ کہا: جی ہاں، فرمایا: وہی (طاقت) خدا ہے کہ جو تجھے نجات دے جہاں اورکوئی مدد کرنے والا نہ ہو۔([11])
پس دیکھ لیا کہ فطرت خدا شناسی کے لیے اصلی اور بنیادی سرمایہ ہے لیکن کبھی غلط ماحول بعبارت دیگر گناہ کی آلودگی کی وجہ سے فطرت زنگ آلودہ ہوجاتی ہے اور مانع حق نمائی ہوجاتی ہے۔
امیر المومنین علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:من عرف نفسہ فقد عرف ربہ؛ جس نے اپنے آپ کی پہچان کرلی اس نے خدا کی معرفت حاصل کرلی۔
اثبات توحید
خدا شناسی کی بحث ذکر کرنے کے بعد یہ بحث مطرح ہوتی ہے کہ آیا ممکن ہے کہ دنیا میں دو یا چند خالق موجود ہوں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہرگز ایسا نہیں ہے خداوند کمال مطلق ہے اس کی کوئی حد نہیں ہے خدا جو کہ ازلی و ابدی ہے زمان و مکان اس کی مخلوق ہے وہ ایک کے سوا ممکن نہیں ہے کہ ہو۔ اگر خدا کے نامحدود اور نامتناہی ہونے پر توجہ کریں تو سمجھ جائیں گے کہ نا محدود ایک کے سوا ممکن ہی نہیں کہ ہو چونکہ تعدد محدود اور متناہی ہونے کا موجب ہے۔
توحید و یگانگی کے اثبات کے سلسلے میں طرح طرح کےدلائل دیئے گئے ہیں جن میں سے بعض کو ذکر کیا جاتا ہے۔
۱۔ برہان ترکیب: خدا ایک ہے اگر دو گانگی فرض کریں تو یہ ترکیب کومستلزم ہے مرکب ہونا یہ احتیاج کو مستلزم ہے نیازو احتیاج ، خداوند کے ساتھ سازگار نہیں ہے ،کما لا یخفی۔
۲۔ اگر اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اور خدا ہوتا تو اس کی طرف سے بھی انبیاء آتے کیونکہ خدا ئی کا لازمہ،بشر کی ہدایت ہے۔
حالانکہ سب انبیاء اور اوصیاء نے خدا کی وحدانیت کے بارے میں خبر دی ہے تو یہ خدا کی یگانگی پر قطعی دلیل ہے۔
امیر المومنین امام علی علیہ السلام اپنے بیٹے امام حسن علیہ السلام کو وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"وَ اعْلَمْ أَنَّهُ لَوْ كَانَ لِرَبِّكَ شَرِيكٌ لَأَتَتْكَ رُسُلُهُ وَ لَرَأَيْتَ آثَارَ مُلْكِهِ وَ سُلْطَانِهِ وَ لَعَرَفْتَ صِفَتَهُ وَ فِعَالَهُ وَ لَكِنَّهُ إِلَهٌ وَاحِدٌ كَمَا وَصَفَ نَفْسَہ"([12])
اور جان لو اے میرے بیٹے اگر تمہارے پروردگار کا کوئی اور شریک ہوتا تو اس کے رسول بھی تمہارے پاس ضرور آتے اور تم یقیناً اس کی حکومت کے آثار بھی دیکھتے اس طرح اس کے افعال و صفات کی معرفت بھی تمہیں حاصل ہوتی مگر سچ یہ ہے کہ وہ خدا ایک ہے جیسا کہ اس نے خود اپنی توصیف کی ہے۔
توحید اور اس کے مراتب
مخفی نہ رہے کہ توحید کی کئی اقسام اور مراتب ہیں جن میں اہم پانچ مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ توحید ذاتی ۲۔ توحید صفاتی ۳۔ توحید خالقیت ۴۔ توحید ربوبی ۵۔ توحید عبادی۔
توحید ذاتی: توحید ذاتی سے مراد یہ ہے کہ خدا ایک ہے اس جیسا کوئی نہیں اس کے مانند اور ہم پلہ کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا جیسا کہ قرآن مجید نے اس کی یکتائی اور بے مثل ہونے پر تاکید فرمائی ہے۔
{ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ۔اللَّهُ الصَّمَدُ ۔لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ۔وَلَمْ يَكُنْ لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ} (اے رسولﷺ) تم کہہ دو کہ اللہ ایک ہے ، اللہ بے نیاز ہے، نہ اس سے کوئی جنا ہے نہ اس کو کسی نے جنا اور اس کا کوئی ہمسر نہیں۔
نیز خدا کی ذات بسیط ہے اس کا کوئی جز نہیں ہے۔ اس میں ترکیب اور کسی قسم کی کثرت ممکن ہی نہیں چنانچہ سورہ توحید میں دونوں امروں کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے سورہ توحید کا دوسرا نام سورہ اخلاص بھی ہے شاید اس وجہ سے اس کا نام اخلاص ہو کہ خدا کو ہر حوالے سے ذات اور صفات میں خالص اوریکتا مانا جائے۔
جب خدا کی ذات بسیط ہے اس کا کوئی جزء نہیں تو عیسائیوں کا تثلیث یعنی تین خداؤں (باپ، بیٹا اور روح القدس) والا عقیدہ باطل ثابت ہوا ۔ اور اگر تینوں خدا مستقل وجود رکھتے ہوں تو اس صورت میں یہ توحید ذاتی (کہ اس کی مانند کوئی نہیں) کے ساتھ منافاۃ رکھتی ہے۔ ان شئت التفصیل فراجع الی المطولات
توحید صفاتی: خداوند متعال سب صفات کمالیہ کا مالک ہے اور صفات کمالیہ مانند علم و قدرت اور حیات اس کی عین ذات ہیں۔ یہ اوصاف مفہوم کے حوالے سے ایک دوسرے اختلاف رکھتے ہیں علم کا مفہوم اور ہے اور قدرت کا مفہوم اور ہے لیکن یہ اوصاف اس کی عین ذات ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ خدا کی ذات سے اس کا علم جدا ہو بلکہ خدا عین علم، عین قدرت، عین حیات ہے۔ بعبارت دیگر اس کی صفات اگرچہ مفہوم میں مختلف لیکن مصداق میں متحد ہیں۔ انسان کی ذات اور ہے اور صفت علم اس سے جدا ہے۔ ممکنات کی ذات اور صفات آپس میں ایک دوسرے سےجدا ہوتی ہیں لیکن خدا چونکہ واجب الوجود ہے اس کی صفات عین ذات ہیں۔ چنانچہ امیرالمومنین علی علیہ السلام خدا کی ذات اور صفات کی وحدت کے بارے میں ارشار فرماتے ہیں۔ وکمال الاخلاص لہ نفی الصفات عنہ لشہادۃ کل صفۃ انہا غیر الموصوف و شہادۃ کل موصوف انہ غیر الصفۃ([13])۔ توحید میں کمال اخلاص یہ کہ - زائد بر ذات – صفات کی نفی کریں کیونکہ ہر صفت اپنے موصوف سے اختلاف اور ہر ایک موصوف، صفت سے جدائی کی گواہی دیتا ہے۔
توحید خالقیت: کائنات میں جو کچھ ہے وہ سب اللہ کی مخلوق ہے اللہ کے سوا کوئی خالق نہیں ہے نہایت امر یہ کہ کائنات میں جو کچھ ہے وہ خدا کی بالمباشرہ (بلا واسطہ) یا سبب کے ذریعے اس کی مخلوق ہے۔
قرآنی نصوص
{ قُلِ اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ} ([14])
کہہ دیجئیے کہ اللہ ہی ہر شئی کا خالق ہے اور وہی یکتا اور سب پر غالب ہے۔
{ أَنَّى يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُنْ لَهُ صَاحِبَةٌ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ} ([15])
اس کے اولاد کس طرح ہوسکتی ہے اس کی تو کوئی بیوی بھی نہیں ہے اور وہ ہر شئی کا خالق ہے اور وہ ہر چیز کو خوب جانتا ہے۔
{ يَا أَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللَّهِ} ([16])
انسانو! اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کرو کیا اس کے علاوہ بھی کوئی خالق ہے۔
مخفی نہ رہے کہ اس مسئلہ توحید خالقیت میں اہل سنت میں سے اشاعرہ، خالقیت کو صرف خدا میں منحصر سمجھتے ہیں غیر اللہ کو نہ مستقلاً اور نہ ہی تبعاًخالق نہیں مانتے اور اس بناء پر موجودات امکانیہ میں علیت و معلولیت، تأثیر و تاثر کے منکر ہیں۔
اور اہل سنت میں معتزلہ کی طرف منسوب ہے کہ وہ عالم امکان میں قانون علیت کے ملتزم ہیں لیکن وہ کہتے ہیں اشیاء کے حدوث میں خالق صرف اللہ ہے لیکن جب اشیاء حادث، ایجاد ہوجائیں پھر وہ قانون علیت عام کے تحت اپنے افعال و آثار میں مستقل ہیں۔ یہ تفویض والا نظریہ ہے۔
تیسرا نظریہ شیعہ کا ہے جو کہ خالقیت کو صرف خدا میں ہی حدوثاً اور بقاءاً منحصر سمجھتا ہے اور نظام وجود میں قانون علیت کا بھی ملتزم ہے، اگر انسان اس نظام امکانی پر غور کرے تو اس میں نظام اسباب و مسببات کو پاتا ہے چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
{ وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَكُمْ }([17]) اور پھر آسمان سے پانی برسا کر تمہاری روزی کے لیے (بذریعہ پانی) پھل نکالے ہیں۔ تو اس آیت میں باء سببیت کی ہے معلوم ہوا کہ ثمرات اور نباتات کی پیدائش میں پانی تاثیر کرتا ہے۔
{ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَسُوقُ الْمَاءَ إِلَى الأرْضِ الْجُرُزِ فَنُخْرِجُ بِهِ زَرْعاً تَأْكُلُ مِنْهُ أَنْعَامُهُمْ وَأَنْفُسُهُمْ أَفَلا يُبْصِرُونَ}([18]) کیا ان لوگوں نے یہ نہیں دیکھا ہے کہ ہم پانی کو چٹیل میدان کی طرف بہا لے جاتے ہیں اور اس کے سبب (ذریعہ) زراعت پیدا کرتے ہیں جسے یہ خود بھی کھاتے ہیں اور ان کے جانور بھی کھاتے ہیں تو کیا یہ دیکھتے نہیں ہیں۔
{اللَّهُ الَّذِي يُرْسِلُ الرِّيَاحَ فَتُثِيرُ سَحَابًا فَيَبْسُطُهُ فِي السَّمَاءِ كَيْفَ يَشَاءُ}([19])
اللہ وہی ہے جو ہواؤں کو چلاتا ہے تو وہ بادلوں کو اڑاتی ہیں پھر وہ ان بادلوں کو جس طرح چاہتا ہے آسمان میں پھیلا دیتا ہے۔
تو اس آیت میں فتثیر سحابا میں صراحت پائی جاتی ہے کہ ہوائیں بادلوں کو اڑاتی ہیں ایک طرف سے دوسری طرف لے جاتی ہیں تو معلوم ہوا بادلوں کی حرکت کے لیے ہوائیں علل تکوینی اور اسباب ہیں۔
{ وَتَرَى الأرْضَ هَامِدَةً فَإِذَا أَنْزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَأَنْبَتَتْ مِنْ كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍ}([20])۔ اور تم زمین کو مردہ دیکھتے ہوپھر جب ہم پانی برسا دیتے ہیں تو وہ لہلہانے لگتی ہے اور ابھرنے لگتی ہے اور ہر طرح کی خوبصورت چیز اگانے لگتی ہے۔
{ مَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ }([21])۔ جو لوگ خدا کی راہ میں اپنے اموال خرچ کرتے ہیں ان کے عمل کی مثال اس دانہ کی ہے جو سات بالیاں اُگاتا ہے۔
اس آیت میں سات بالیوں کے اگانے کی نسبت حبّہ دانہ کی طرف دی گئی ہے۔
البتہ مخفی نہ رہے انسان کے افعال کو خدا نے انسان کی طرف نسبت دی ہے انکی نسبت بلاواسطہ خدا کی طرف صحیح نہیں ہے جیسا کہ انسان کا کھانا پینا اٹھنا ، نکاح کرنا، نماز ، روزہ وغیرہ یہ افعال انسان کے ساتھ قائم ہیں اور اسی کی طرف مستند ہیں انسان ہی کھاتا پیتا ، بڑھتا، سمجھتا، سوتا چلتا پھرتا ہے قرآن کی نگاہ میں انسان ہی ان افعال کا فاعل اور علت ہے۔ و التفصیل فی محلہ۔
توحید خالقیت میں اشاعرہ اور معتزلہ کا نظریہ صحیح نہیں ہے بلکہ حق نظریہ ، شیعہ اثنا عشریہ کا ہے۔ ہم خالقیت کو مستقلاً و بالذات صرف خدا ہی میں منحصر سمجھتے ہیں لیکن اس کی طرف سے خالقیت ماذونہ (جس کی اجازت دی گئی ہے) یہ توحید خالقیت کے ساتھ منافات نہیں رکھتی۔ اور اسباب امکانیہ خواہ طبعی ہوں یا غیر طبیعی، فواعل شاعرہ کی فاعلیت یہ موثرات اور اللہ کے اذن اور مشیت سے ہے۔ ان کی فاعلیت، خدا کی فاعلیت کے عرض میں نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ خدا نے بادلوں کی حرکت کو ہواؤں کی طرف دی ہے کہ ہوائیں بادلوں کو چلاتی ہیں اور اسی حرکت کی نسبت کو اپنی طرف دی ہے ، ملاحظہ فرمائیں:
{ أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُزْجِي سَحَابًا ثُمَّ يُؤَلِّفُ بَيْنَهُ ثُمَّ يَجْعَلُهُ رُكَامًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلالِهِ}([22])
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا ہی بادل کو چلاتا ہے اور پھر انہیں آپس میں جوڑ کر تہہ بہ تہہ بنا دیتا ہے پھر تم دیکھو گے کہ اس کے درمیان سے بارش نکل رہی ہے۔
اور کبھی خدا انبات کی نسبت دانہ کی طرف دیتا ہے جیسا کہ سورہ بقرہ کی آیت ۲۶۱ اور سورہ حج کی آیت ۵ میں ہے اور کبھی نسبت اپنی طرف دیتا ہے۔
{ وَأَنْزَلَ لَكُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَنْبَتْنَا بِهِ حَدَائِقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ}([23])۔
اور ہم نے تمہارے لیے آسمان سے پانی برسایا ہے پھر ہم نے اس سے خوشنما باغ اُگائے ہیں۔
خدا (موت) مارنے کی نسبت ملائکہ (فرشتوں) کی طرف دیتا ہے اور کبھی یہ نسبت اپنی طرف دیتا ہے کہ اللہ مارتا ہے ۔ ملاحظہ فرمائیں:
{ وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لا يُفَرِّطُونَ }([24])۔ اور وہی خدا ہے جو اپنے بندوں پرغالب ہے اور تم سب پر محافظ فرشتے بھیجتا ہے یہاں تک کہ جب کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے تو ہمارے بھیجے ہوئے نمائندے اسے اٹھالیتے ہیں اور کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے۔
{ قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ }([25])۔ ملک الموت تمہیں مارے گا۔
{ اللَّهُ يَتَوَفَّى الأنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا}([26])۔
اللہ ہی ہے جو روحوں کو موت کے وقت اپنی طرف بلا لیتا ہے۔
خدا، لوگوں کے اعمال کی کتابت کی نسبت اپنی طرف دیتا ہے کہ اللہ لکھتا ہے وہی خدا کتابت کی نسبت اپنے نمایندوں (ملائکہ) کی طرف دیتا ہے۔
ملاحظہ فرمائیں:{ وَاللَّهُ يَكْتُبُ مَا يُبَيِّتُونَ }([27])۔
اور خدا ان کی باتوں کو لکھ رہا ہے۔
{أَمْ يَحْسَبُونَ أَنَّا لا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَنَجْوَاهُمْ بَلَى وَرُسُلُنَا لَدَيْهِمْ يَكْتُبُونَ}([28])
یا ان کا خیال ہے کہ ہم ان کے راز اور خفیہ باتوں کو نہیں سن سکتے تو ہم کیا ہمارے نمایندے سب کچھ لکھ رہے ہیں۔
مخفی نہ رہے کہ کائنات کے امور کی تدبیر بھی خلقت کی طرح اللہ تعالیٰ میں منحصر ہے جس کا قرآن نے مشرکین سے اعتراف لیا ہے۔
{ وَمَنْ يُدَبِّرُ الأمْرَ فَسَيَقُولُونَ اللَّهُ}([29])۔
اور کون سارے امور کی تدبیر کرتا ہے تویہ سب یہی کہیں گے کہ اللہ ۔اس کے باوجود کہ تدبیر، اللہ کرتا ہے قرآن، غیر اللہ کی تدبیر کی تصریح فرما رہا ہے کہ اللہ کے علاوہ بھی تدبیر کرنے والے ہیں۔
{ فَالْمُدَبِّرَاتِ أَمْرًا}([30])۔
پھر امور کا انتظام کرنے والے ہیں۔
معلوم ہوا کہ مذکورہ تمام مطالب میں جہاں نسبت ہواؤں کی طرف ،دانہ کی طرف، پانی کی طرف، ملائکہ کی طرف دی گئی ہے اور پھر وہی نسبت خدا کی طرف دی گئی ہے اس کا آپس میں کوئی منافات اور تضاد نہین ہے چونکہ مذکورہ اشیاء کی طرف نسبت اس وجہ سے ہے کہ وہ اللہ کے اذن کے ساتھ یہ کام انجام دیتے ہیں۔ اور اس کے اذن سے ہی تاثیر گذار ہیں، پس کائنات میں جو کچھ ہے وہ اللہ کی مخلوق ہے یا بلا واسطہ یا بذریعہ اسباب و علل کما مرّ۔
توحید ربوبی و توحید افعالی
لغت میں ربّ کا معنی مالک، سردار، اصلاح کنندہ ہے۔
توحید ربوبی سے مراد یہ ہے کہ انسان یہ عقیدہ رکھے کہ کائنات کی سب تدبیر خدا کے ہاتھ میں ہے۔ کائنات میں کوئی چیز بھی اپنی تدبیر میں مالک نہیں ہے انسان کی زندگی کی برگشت بھی خدا کی طرف ہے اس عالم ممکنات میں اگر اسباب اور مدبرات ہیں تو وہ سب خدا کے لشکر ہیں اس کے امر اور مشیت سے انجام دیتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ ربوبیت اور تدبیر مستقلاً و بالذات خدا ہی میں منحصر ہے اور قرآن کی آیہ مبارکہ{ فَالْمُدَبِّرَاتِ أَمْرًا}([31]) پھر امور کا انتظام کرنے والے ہیں۔
یہ خدا کی ربوبیت اور تدبیر کے ساتھ منافات نہیں رکھتی چونکہ یہ انتظام کرنے والے اسی کے حکم سے انتظام کرتے ہیں۔
اور ربوبیت میں شرک سے مراد یہ ہے کہ کہا جائے خدا کے لیے مخلوقات ہیں اور کائنات کا انتظام خدا نے ان کے حوالے کر دیا ہے اور خود خدا، ان کے خلق کرنے کے بعد سب امور کو ان کے سپرد کرنے کے بعد کنار ہوگیا ہے اور تدبیر امور میں کوئی عمل دخل نہیں رکھتا یہ عقیدہ رکھنا شرک ہے۔
{ قُلْ مَنْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ۔سَيَقُولُونَ لِلَّهِ}([32]) کہہ دیجئے کہ سات آسمانوں اور عرش اعظم کا ربّ کون ہے تو پھر کہیں گے کہ اللہ ہی ہے۔
توحید افعال: توحید افعالی سے مراد یہ ہے کہ خدا ہی خلق کرتا ہے ، رزق دیتا ہے، زندہ کرتا ہے، مارتا ہے، عطا کرتا ہے و ۔۔۔ اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے وہ اپنی قدرت کاملہ سے خلق کرتا ہے، روزی دیتا ہے، زندگی دیتا ہے اور مارتا ہے اور اپنے کاموں میں کسی کا محتاج نہیں ہے۔ توحیدا افعال کے بہت سے گروہ مخالف ہیں ان میں سے ایک مفوضہ ہیں اور مفوضہ کے چند گروہ ہیں: ۱۔ یہود، جن کا اعتقاد یہ ہے کہ کائنات ، پیدائش میں صانع کی محتاج ہے لیکن بقاء میں محتاج نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ خدا نے اتوار کے دن سے لے کر جمعہ تک دستگاہ آفرینش کو خلق کیا پھر ہفتہ کے دن آرام کیا اور اس دستگاہ نے اپنے کام کوجاری رکھا اور پھر اسے خدا کی کوئی احتیاج نہیں ہے۔ خداوند متعال نے اس گروہ کے عقیدہ کو قرآن میں ردّ کیا ہے۔
{ وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنْفِقُ كَيْفَ يَشَاءُ}([33])۔
اور یہودی کہتے ہیں کہ خدا کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں جب کہ اصل میں انہیں کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور یہ اپنے قول کی بناء پر ملعون ہیں اور خدا کے ہاتھ کھلے ہوئے ہیں اور وہ جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے۔
اور ایک دوسری آیت میں فرماتا ہے :{ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ}([34]) وہ ہر روز ایک نئی شان والا ہے۔
دوسرا گروہ اہل سنت سےمفوضہ کا ہے جو کہتے ہیں انسان اپنے افعال میں مستقل ہے۔ اللہ نے انسان کو علم و قدرت اور ارادہ دیا ہے اور جو کچھ انسان کہتا ہے اپنے ارادہ اور اختیار سے کہتا ہے اور خدا کا ارادہ انسانوں کے فعل میں کچھ مدخلیت نہیں رکھتا برخلاف اشاعرہ (گروہ دیگر اہل سنت) کہ انسانوں کے افعال کو خدا کے ساتھ مستند جانتے ہیں اور انسانوں کو اپنے کاموں میں مجبور اور بمنزلہ آلہ فعل سمجھتے ہیں۔
ہم شیعہ حضرات کی احادیث میں آیا ہے کہ لا جبر ولا تفویض بل اَمۡرٌ بین الامرین، یعنی نہ جبر ہے کہ انسان بالکل اختیار نہ رکھتا ہو اور نہ تفویض ہے کہ فاعل مستقل ہو بلکہ ان دو امروں کی درمیانی صورت ہے۔
تیسرا گروہ مفوضہ کا ہے جو کہتے ہیں اللہ نے خلق کرنے ، رزق دینے، مارنے، جینے وغیرہ کے کاموں کو پیغمبر اسلام ﷺ اور ائمہ طاہرین علیہم السلام یا ملائکہ مقربین ، مانند جبرئیل و میکائیل ، اسرافیل عزرائیل کے حوالے کردیا ہے۔
لیکن یہ عقیدہ باطل ہے ائمہ طاہرین علیہم السلام سے اس گروہ کی مذمت میں بہت ساری حدیثیں نقل ہوئی ہیں۔
خلاصہ یہ کہ خدا نے خلق کرنے، رزق دینے، مارنے اور زندہ کرنے وغیرہ کا کام بطور مستقل (یعنی قطع نظر اپنے اذن کے) کسی کے تفویض نہیں کیا۔
چنانچہ حکماء، عقول اور مفوضہ، انبیاء اوصیاء اور ملائکہ کے بارے میں گمان رکھتے ہیں اور حکماء طبیعی، طبیعی قوتوں ، اسباب اور معدّات مانند سورج، چاند، ستارے، زمین، ہوا اور بارش کے بارے میں گمان رکھتے ہیں۔
لیکن مخفی نہ رہے کہ حکمت الٰہی نے ایسا اقتضاء کیا ہے کہ اکثر امور بغیر واسطہ اور سبب کے موجود نہ ہوں ابی اللہ ان یجری الامور الا باسبابہا([35])۔ لذا اللہ چاہتا ہے کہ سب کام اسباب کے ذریعہ جاری ہوں۔
یہی وجہ ہے کہ بعض اشیاء کو دوسری بعض اشیاء کی پیدائش کے لیے سبب قرار دیا ہے خواہ وہ اسباب اختیاری ہوں جیسے: جماع انعقاد نطفہ کا سبب ہے یا بیج بونا زراعت کا سبب ہے، خواہ اسباب غیر اختیاری ہوں جیسے جلانے کا سبب آگ ہے، روشنی اور حرارت کا سبب سورج ہے، تولیدی بخار اور بادلوں کا سبب حرارت ہے اور بادل ، بارش کے نزول کا سبب ہے۔ اسی طرح دوسرے اسباب طبیعی۔ اور اسی قبیل سے ہے جیسا کہ روایات میں آیا ہے کہ اسرافیل واسطہ حیات ہے میکائیل رزق کا واسطہ ہے، جبرائیل علم اور عزرائیل قبض روح کا واسطہ ہے۔
جس طرح موجودات اصل وجود میں حق تعالیٰ کے فیوضات کے محتاج ہیں اسی طرح بقاء میں بھی اس کے محتاج ہیں اگر وہ چاہے کہ فلاں موجود ختم ہوجائے یا اس کا اثر نہ رہے تو فوراً اس کا وجود اور اثر ختم ہوجائے گا۔
خلاصہ یہ کہ اس عالم امکان کے سب امور پیدا کرنا، مارنا، زندہ کرنا، رزق وغیرہ دینا یہ سب خدا کا کام ہے ہاں اگر اس کے اذن کے ساتھ انبیاء، اوصیاء یا ملائکہ سے کوئی یہ کام انجام دے تو اس کا شرک کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے جیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مردوں کو باذن اللہ زندہ کرتے تھے اور مادر زاد نابیناؤں کو شفا دیتے تھے یا میکائیل رزق تقسیم کرتا ہے تو یہ عقیدہ شرک نہیں ہے کیونکہ وہ اس کے اذن کے ساتھ یہ کام انجام دیتا ہے اور اس کام میں وہ مستقل نہیں ہے کہ جس طرح خود چاہے کرے اور اسے خدا کے اذن کی ضرورت نہ ہو۔ اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ وہ اذن الٰہی کے بغیر مستقلاً یہ کام انجام دیتا ہے یہ شرک ہے اور اگر یہ عقیدہ ہو کہ میکائیل اللہ کے اذن کے ساتھ رزق تقسیم کرتا ہے تو یہ عقیدہ صحیح ہے۔
مخفی نہ رہے کہ ملائکہ اور روح یعنی جبرائیل شب قدر کی رات، سب مقدرات کو امام زمانہ علیہ السلام کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ مقدّرات یعنی کس کے ہاں فرزند ہونا ہے، کس کو کتنا رزق ملنا ہے، کس کی قسمت میں اس سال زیارت کربلا یا دیگر مشاہد مشرفہ میں حاضر ہونا لکھا ہے ، کس نے اس سال مرنا ہے، کس کو خوشی نصیب ہونی ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب مقدّرات کی لسٹیں، ملائکہ امام معصوم امام زمانہ علیہ السلام کی خدمت میں پیش کرتے ہیں جن پر امام علیہ السلام دستخط کرتے ہیں کیونکہ وہ مخلوق پر خدا کی حجت اور اللہ کے خلیفہ ہیں۔
امام معصوم علیہ السلام فرماتے ہیں: نحن ابواب اللہ، ہم اللہ کے دروازے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض روایات میں آیا ہے کہ امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں کہ خدا بندوں کے رزق کو ہمارے ہاتھوں پر تقسیم اور جاری کرتا ہے کما فی بصائر الدرجات میکائیل کا رزق تقسیم کرنا اور محمد و آل محمد علیہم السلام کے ہاتھوں پر اس کا تقسیم ہونا اور جاری ہونے میں یعنی ان دونوں باتوں میں کوئی منافات نہیں ہے کیونکہ فرشتہ بھی اولی الامر کے تابع ہوتا ہے اور اولی الامر کا امر خدا کا امر ہوتا ہے رزق خدا کا ہی ہوتا ہے اور دیتا بھی وہی ہے۔ رازق خدا ہے، اب اس کی مرضی کہ وہ اسے جس کے ہاتھ پر جاری کردے۔ اس بناء پر اگر رزق کو اللہ کے اذن سے حضرت علی علیہ السلام تقسیم کردیں تو اس میں کیا حرج ہے؟
محمد و آل محمد علیہم السلام علت غائی کائنات ہیں
انہی کی وجہ سے خدا نے پوری مخلوق کو خلق کیا ہے سب مخلوق پر خواہ وہ عرشی ہوں یا فرشی۔ حق تعالیٰ کی طرف سے جوا فاضہ ہو رہا ہے وہ سب انہی حضرات چہاردہ معصومین علیہم السلام کی وجہ سے ہے۔
محمد و آل محمد علیہم السلام باذن اللہ کائنات میں جو تصرفات کرنا چاہیں کرسکتے ہیں ، جس مردے کو زندہ کرنا چاہیں تو باذن اللہ اسے زندہ کرسکتے ہیں اور باذن اللہ عورت کو مرد بنا سکتے ہیں اور مرد کو عورت میں تبدیل کرسکتے ہیں اور ایسا ہوا ہے اور کسی شاک (شک کرنے والے) کو کتا کہہ دیں تو وہ فوراً کتا بن جاتا ہے جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے ایک شخص کو کہا تھا اور وہ کتا بن گیا تھا۔ ([36]) البتہ مخفی نہ رہے کہ امام معصوم، خدا کی دی ہوئی اس طاقت کو عام حالات میں ہر وقت استعمال نہیں کرتے۔
توحید عبادی
عبادت صرف خدا کی ذات کے لیے مخصوص ہے صرف وہی عبادت کے لائق ہے اورکوئی عبادت کے لائق نہیں ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{ قُلْ إِنَّ صَلاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الۡعَالَمِیۡنَ لَا شَریکَ لَہُ}([37])۔ کہہ دیجئے کہ میری نماز، میری عبادتیں، میری زندگی، میری موت سب اللہ کے لیے ہے جو عالمین کا پالنے والا ہے۔
مخفی نہ رہے کہ انبیاء کی بعثت کا عمدہ مقصد، لوگوں کو خدا کی پرستش کی طرف دعوت دینا تھا۔
{ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولاً أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ}([38])۔ اور یقیناً ہم نے ہرامت میں ایک رسول بھیجا ہے کہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو۔
ایک اور آیت میں سب اہل کتاب کو خدا کے سامنے خضوع اورعبادت کی دعوت دی گئی ہے۔
{ قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلّا نَعْبُدَ إِلا اللَّهَ وَلا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ }([39])۔
اے پیغمبر آپ کہہ دیں کہ اہل کتاب آؤ ایک منصفانہ کلمہ پر اتفاق کرلیں کہ خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کریں کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں آپس میں ایک دوسرے کو خدائی کا درجہ نہ دیں۔
نیز ہر مسلمان نماز میں اللہ کی عبادت کی گواہی دیتا ہے{اِیّاک نَعبُدُ} (خدایا) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں۔
تنبیہ: مخفی نہ رہے کہ انبیاء، اوصیاء اور اولیاء کی تعظیم و تکریم ضروری اور موجب اجر و ثواب ہے اور یہ تعظیم و تکریم ان کی عبادت نہیں ہے اور نہ ہی یہ شرک ہے جیسا کہ والدین کی تعظیم اور ان کے سامنے جھکنا یہ ان کی عبادت نہیں ہے چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ { وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا}([40])۔
اور ان کے لیے خاکساری کے ساتھ اپنے کاندھوں کوجھکا دینا اور ان کے حق میں دعا کرتے رہنا کہ پروردگار اُن دونوں پر اسی طرح رحمت نازل فرما جس طرح کہ انہوں نے بچپنے میں مجھے پالا ہے۔
اگر کسی کے سامنے مطلقاًٍ جھکنا اور خضوع کرنا یہ شرک ہوتا تو خدا، انسان کو والدین کی تعظیم اور ان کے سامنے جھکنے کا حکم نہ دیتا۔
عبادت اور تعظیم میں کیا فرق ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہہ اگر مخضوع لہ (جس کے سامنے خضوع کیاجائے) کو کوئی خدا سمجھ کر خضوع کرتا ہے تویہ خضوع اس کی عبادت محسوب ہوگی اور خضوع کرنے والا مشرک ہے۔ لیکن اگر کوئی مخضوع لہ کو خدا نہ مانتا ہوبلکہ یہ اعتقاد رکھتا ہو کہ یہ خدا کا عبد صالح ہے جیسا کہ انبیاء ، اوصیاء، ائمہ طاہرین علیہم السلام اور ان کی اولاد صالح تو ان کی تعظیم و تکریم شرک نہیں ہوگی۔ اور نہ ہی وہ معبود، محسوب ہوں گے۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو حضرت آدم علیہ السلام کا سجدہ کرنے کا حکم دیا تھا:{ وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلائِكَةِ اسْجُدُوا لآدَمَ فَسَجَدُوا إِلا إِبْلِيسَ }([41])۔ اور یاد کرو وہ موقع جب ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدم کے لیے سجدہ کرو تو ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کرلیا۔
آپ کا کیا خیال ہے کہ اللہ نے، فرشتوں کو شرک کرنے کاحکم دیا تھا؟ہرگز نہیں ، یا حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں اور ان کے والد اور خالہ کا حضرت یوسف علیہ السلام کے سامنے سجدہ کرنا کیا یہ شرک تھا؟ {وَخَرُّوا لَہُ سُجَّداً}([42]) اور سب یوسف کے سامنے سجدہ میں گر پڑے۔ ([43])
معلوم ہوا اگر مخضوع لہ (جس کے سامنے خضوع کیا جائے) کو کوئی اپنا خدا اور ربّ سمجھ کر خضوع کرتا ہے تو یہ شرک ہے اور اگر اس عقیدہ کے بغیر خضوع کرے تو یہ شرک نہیں ہے اور مخضوع لہ کی عبادت بھی محسوب نہیں ہے۔ اگرچہ اسلام میں غیر اللہ کو سجدہ کرنا جائز نہیں ہے شاید اس حرمت کی وجہ یہ ہو کہ سجدہ، عبادت کے لیے عام وسیلہ اور طریقہ ہے اور سب قوموں کے نزدیک اللہ کی عبادت ، سجدہ کے ذریعہ ہوتی ہے لذا اسلام کسی غیر اللہ کے سامنے سجدہ کی اجازت نہیں دیتا ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا: کہ اگر میں کسی کو کسی کا سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ کما فی الوسائل۔( کتاب النکاح)
خلاصہ یہ کہ قرآن مجید کا بوسہ لینا یا معصومین علیہم السلام کی ضریحوں کا بوسہ لینا([44]) یا سادات اور علماء ،اساتید کااحترام کرنا اور ان کے ہاتھ چومنا یا والدین کی تعظیم و تکریم کرنا درست ہے اور یہ ان کی عبادت نہیں ہے اور اس چیزکا شرک کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور اسی طرح بزرگان دین کے ایام ولادت کو خوشی کا اظہار کرنا اور مدح سرائی کرنا اور ان کی وفات اور شہادت کے ایام کوسوگواری کرنا یہ صحیح ہے اور یہ ان کی تعظیم اور احترام ہے۔ خالق کائنات ارشاد فرماتا ہے:
{ قُلْ لا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى}([45])۔(اے پیغمبرؐ) آپ کہہ دیجئیے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقرباء سے محبت کرو۔
اہل سنت کی کتب میں بھی تصریح موجود ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا میرے اقرباء سے مراد علی، فاطمہ ، حسن اور حسین علیہم السلام ہیں۔([46])
نذر
نذر صرف خدا کے لیے ہے اور نذر میں صیغہ پڑھنا ضروری ہوتا ہے لیکن یہ شرط نہیں کہ وہ عربی میں پڑھا جائے۔ شیعہ کے نزدیک نذر، عہد، قربانی غیر خدا کے لیے جائز نہیں ہے۔ نذر کو ہرجگہ پر انجام دیاجاسکتا ہے لیکن مشاہد مشرفہ کاایک خاص مقام اور احترام ہے اس لیے مومنین نذر کی ادائیگی وہاں کرتے ہیں۔
نذر کا صیغہ یوں ہے کہ کہے : للہ علیّ نذر أن أفعل کذا اَ واَن اقول کذا۔
نذر کرتے وقت کہے : مجھ پر خدا کے لیے نذر ہے کہ میں فلاں کام انجام دوں گا۔ مثلاً مجلس امام حسین علیہ السلام کروں گا یا دو رکعت نماز پڑھوں گا یا قربانی کروں گا یا صدقہ دوں گا وغیرہ۔ یا مجھ پر خدا کے لیے نذر ہے کہ میں مثلاً فلاں دعا، قرآن کی فلاں سورہ کی تلاوت کروں گا یا امام علیہ السلام کا معجزہ مومنین کو سناؤں گا۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے نذر صرف خدا کے لیے ہوتی ہے لیکن نذر کی قربانی وغیرہ کا ثواب جس امام کو یا کربلا کے جس شہید یا دیگر اولیاء و صلحاء کو ہدیہ کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔ عرف عام میں جو کہا جاتا ہے کہ میں یہ صدقہ فلاں ولی کے لیے دوں گا تو اس سے مراد صدقہ کا مصرف ہے کہ اس کا ثواب اس ولی کوپہنچے۔
نذر کے احکام کی تفصیل کے بارے میں فقہی کتب کی طرف رجوع کیاجاسکتا ہے۔
تذکر: مومنین و مومنات کے ہاں معجزات ائمہ علیہم السلام کے سنانے کا جو رواج پایا جاتا ہے اس کا بھی وہی طریقہ ہے جو اوپر ذکر ہوچکا ہے۔ کہ نذر کے وقت یوں کہے کہ مجھ پر خدا کے لیے نذر ہے کہ میں امام علیہ السلام کا فلاں معجزہ گھر میں پڑھوں گا یا پڑھواؤں گا اور نیاز تقسیم کروں گا۔ یہ نذر صحیح ہے اور اس کا ثواب جس نبی، امام یا شہید کو ہدیہ کرنا چاہیں کرسکتے ہیں۔
صاحبان علم و فضل سے ہماری خواہش ہے کہ پیغمبر اسلام ﷺ اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کے معجزات جو کتب معتبرہ میں منقول ہیں ان سے جتنا ممکن ہو معجزات کا ترجمہ کرکے رسالہ جات کی صورت میں طبع کروائیں تاکہ مومنین و مومنات اپنی نذور میں احسن طریقے سے استفادہ کرسکیں۔
اس سلسلہ میں مدینہ المعاجز([47])، اثبات الھداۃ، بحار الانوار ، کفایۃ الموحدین، القطرہ اور دیگر کتب کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔
مخفی نہ رہے کہ توحید کے اور مراتب بھی ہیں۔ جیسے توحید در امر و حکم ، توحید در توکل وغیرہ ذلک۔
صفات ذات و صفات فعل
فعل ثبوتیہ کی دو قسمیں ہیں: ۱۔ صفات ذات وہ ہیں جو کہ خدا کی عین ذات ہیں وہ خدا کی ذات سے جدا نہیں ہیں جیسے علم و قدرت و حیات اور ہر وہ صفت جس کی بازگشت ان تین صفات کی طرف ہوتی ہو جیسے ازلی، ابدی، مدرک، سمیع، بصیر، حکیم، غنی وغیرہ ۔
صفات فعل: وہ صفات ہیں جو خدا سے تعلق رکھتی ہیں یعنی جب تک وہ فعل اس سے صادر نہ ہو اس پر اس وصف کا اطلاق نہیں کیا جاسکتا جیسے خالق و رازق۔ خدا تھا اور ایک وقت ایسا تھا جس وقت خدا نے کسی چیز کو خلق نہیں کیا تھا صفات فعل میں اِذَا اور اِنۡ داخل ہوتا ہے۔ اذا اراد شیئا اور صفات ذات میں اِذَا عَلِمَ یا اِنۡ عَلِمَ نہیں کہا جاسکتا۔
صفات ثبوتیہ: خداوند متعال کی صفات کو شمار کرنا ممکن نہیں ہے جتنی بھی صفات کمالیہ کا تصور ہوسکتا ہے وہ سب حق تعالیٰ کے لیے حاصل ہیں صفات ثبوتیہ سے مراد وہ صفات ہیں جو خدا کی ذات کے لائق ہیں اور اس کے علاوہ اور کسی کے واسطے نہیں ہیں۔
علم کلام میں جن صفات الٰہی کے متعلق بالخصوص بحث کی جاتی ہے وہ درج ذیل آٹھ صفات ہیں:
- 1.قدیم: حق تعالیٰ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
- 2.قادر: یعنی قدرت رکھنے والا، وہ ہر شی پر قدرت کاملہ رکھتا ہے۔
- 3.عالم: جاننے والا، وہ ہر شی کا جاننے والا ہے کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے۔
- 4.حیّ: یعنی زندہ، وہ زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا۔
- 5.مُرید: یعنی صاحب ارادہ ہے یعنی فاعل مختار ہے۔
- 6.مُدرک: حق تعالیٰ ہر ظاہر اور پوشیدہ چیز کا ادراک اور معلوم کرنے والا ہے۔
- 7.متکلم: وہ کلام کو تخلیق کرتا ہے یعنی ہر شی کو تکلم کرنے کی طاقت عطا کرسکتا ہے۔
- 8.صادق: حق تعالیٰ اپنی باتوں میں صادق ہے اس کی گفتار میں جھوٹ کا شبہ تک نہیں پایا جاتا۔ کیونکہ جھوٹ بھولنا قبیح ہے اور خدا قبیح کام سے منزہ ہے۔
مخفی نہ رہے کہ صفات الٰہی میں وہ صفات جو کمال کی قسم سے تعلق رکھتی ہیں انہیں صفات ثبوتیہ یا صفت جمال کہتے ہیں اور وہ صفات جو نقص و عیب کی قسم سے تعلق رکھتی ہیں انہیں صفات سلبیہ یا صفات جلال کہا جاتا ہے۔
صفات سلبیہ: وہ صفات جو خدا کی ذات کے لائق نہیں اس کی ذات ہر قسم کے نقص و عیب سے پاک و منزہ ہے۔
خدا جسم نہیں رکھتا۔
خدا کسی مخصوص مکان میں نہیں ہے وہ ہر جگہ موجود اور حاضر ہے۔
خدا کسی چیز میں حلول نہیں کرتا یعنی کسی شئی میں نہیں سماتا۔([48])
خدا کو آنکھوں سے دیکھا نہیں جاسکتا، جب حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بنی اسرائیل نے کہا ہم اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک خدا کو اعلانیہ نہ دیکھ لیں تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خدا سے رؤیت کی درخواست کی اور جواب منفی ملا :{ قَالَ لَن تَرَٰنِی}([49]) فرمایا: تم ہرگز مجھے نہیں دیکھ سکتے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:{لا تُدْرِكُهُ الأبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الأبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ}([50]) آنکھیں اسے نہیں دیکھ سکتیں اور وہ لوگوں کی نظروں کا برابر ادراک رکھتا ہے کہ وہ لطیف بھی ہے اور خبیر بھی ہے۔
سوال: خدا کو نہ دنیا میں نہ آخرت میں دیکھنا ممکن نہیں ہے تو پھر اس آیت کے بارے میں جس میں رؤیت کا ذکر آیا ہے کیا کہیں گے:
{ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ ۔ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ }([51]) اس دن بعض شاداب چہرے اپنے خدا کی طرف دیکھیں گے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ جب اپنے مقام میں ادلہ قطعیہ کے ساتھ یہ بات ثابت ہے کہ خدا جسم نہیں رکھتا ، چہرہ نہیں رکھتا، ہاتھ نہیں رکھتا،اعضاء نہیں رکھتا تویہاں ایک کلمہ مقدّر (تقدیر میں) ماننا پڑے گا کہ یہاں مراد رحمت خداوندی ہے کہ اس دن بعض شاداب چہرے اپنے رب کی رحمت کو دیکھیں گے۔
ازالہ شبہ:مخفی نہ رہے کہ خدا کی رؤیت حسی اور بصری (آنکھوں) سے ممکن نہیں ہے۔ نہ دنیا میں اور نہ آخرت میں کیونکہ رؤیت بصری کا لازمہ یہ ہے کہ وہ جسم رکھتا ہو اور جسم اعضاء اور مکان کا محتاج ہے اور یہ چیزیں ممکنات کے لیے ہیں نہ کہ واجب الوجود کے لیے۔ لیکن رؤیت قلبی اور باطنی مشاہدہ، جو ایمان کامل کے نتیجہ میں حاصل ہوتا ہے اس کا اولیاء الٰہی کے بارے میں امکان بلکہ وقوع بھی ممکن ہے۔ جیسا کہ امیر المومنین علی علیہ السلام کو کسی نے عرض کیا: کیا آپ نے خدا کو دیکھا ہے تو آپ نے فرمایا کہ میں بغیر دیکھے کسی کی عبادت نہیں کرتا ہوں، تو سائل نے کہا کہ آپ خدا کو کس طرح دیکھتے ہیں؟ امیر المومنین علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: لا تدرکہ العیون بمشاہدۃ العیان ولکن تدرکہ القلوب بحقائق الایمان([52])؛ ظاہری آنکھیں اسے نہیں دیکھ سکتیں لیکن حقیقت ایمان کے ذریعہ دل سے اسے دیکھ سکتےہیں۔
خدا کا کوئی بھی شریک نہیں ہے اور وہ محل حوادث بھی نہیں ہے۔
تذکر: مخفی نہ رہے کہ آسمانی اور زمینی مخلوق کو خدا کی پہچان، محمد و آل محمد علیہم السلام نے کروائی ہے چنانچہ امام علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اگر ہم (چودہ) نہ ہوتے تو خدا کی پہچان نہ ہوتی اور نہ ہی خدا کی عبادت ہوتی۔
[1]۔سورہ مبارکہ نحل، آیت ۱۸۔
[2]۔سورہ مبارکہ محمدؐ، آیت ۱۹۔
[3]۔آل عمران، آیت ۱۹۰۔
[4]۔سورہ انعام، آیات ۷۶، ۷۷، ۷۸۔
[5]۔مخفی نہ رہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ستارہ، چاند اور سورج کو خدا تسلیم نہیں کیا تھا بلکہ بطور استفہام انکاری کے کہا چونکہ یہ استدلال کا ایک بہترین طریقہ ہے جس سے طرف مخالف اپنی غلطی پر سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
[6]۔فصلت، آیت ۵۳۔
[7]۔سورہ روم، آیت ۳۰۔
[8]۔بحار الانوار، ج۳، ص ۲۷۸۔
[9]۔تفسیر قمی، ذیل آیہ ۳۰ از سورہ روم۔
[10]۔بحار الانوار، ج۳، ص ۲۸۱؛ اہل سنت کی کتب میں بھی اسی مضمون کی روایات ملتی ہیں۔ کما رواہ ابو یعلی فی مسندہ و الطبرانی فی الکبیر والبیہقی فی السنن۔
[11]۔بحار الانوار، ج۳/ ۴۱۔
[12]۔نہج البلاغہ،نامہ ۳۱، وصیت بہ امام حسن علیہ السلام ۔
[13]۔نہج البلاغہ، خطبہ ۱۔
[14]۔سورہ الرعد، آیت ۱۶۔
[15]۔ سورہ انعام، آیت ۱۰۱۔
[16]۔الفاطر، آیت ۳۔ و آیات دیگر بہ ہمین مضمون۔
[17]۔سورہ مبارکہ بقرہ، آیت ۲۲۔
[18]۔سورہ مبارکہ سجدہ، آیت ۲۷۔
[19]۔سورہ مبارکہ روم، آیت ۴۸۔
[20]۔سورہ حج، آیت ۵۔
[21]۔سورہ بقرہ، آیت ۲۶۱۔
[22]۔سورہ نور، آیت ۴۳۔
[23]۔سورہ نمل، آیت ۶۰۔
[24]۔سورہ انعام، آیت ۶۱۔
[25]۔سورہ سجدہ، آیت ۱۱۔
[26]۔سورہ زمر، آیت ۴۲۔
[27]۔سورہ نساء، آیت ۸۱۔
[28]۔سورہ زخرف،آیت ۸۰۔
[29]۔سورہ یونس، آیت ۳۱۔
[30]۔سورہ نازعات، آیت ۵۔
[31]۔سورہ نازعات، آیت ۵۔
[32]۔سورہ مومنون، آیت ۸۶، ۸۷۔
[33]۔سورہ مائدہ، آیت ۶۴۔
[34]۔سورہ الرحمن، آیت ۲۹۔
[35]۔اصول کافی، باب معرفۃ الامام، حدیث ۷۔
[36]۔شواہد النبوۃ ملاجامی (حالات امام جعفر صادق علیہ السلام)۔
[37]۔سورہ انعام، آیت ۱۶۲۔
[38]۔سورہ نحل، آیت ۳۶۔
[39]۔سورہ آل عمران، آیت ۶۴۔
[40]۔سورہ اسرائیل، آیت ۲۴۔
[41]۔سورہ بقرہ، آیت ۳۴۔
[42]۔سورہ یوسف، آیت ۱۰۰۔
[43]۔چاہے حضرت آدم علیہ السلام کو ملائکہ کے سجدہ کی نسبت قبلہ مانا جائے کما فی الروایات یا مثلاً خود آدمؑ کا سجدہ مانا جائے اتنی بات مسلم ہے کہ ملائکہ نے آدم کو خدا سمجھ کر سجدہ نہیں کیا تھابلکہ حکم خدا سمجھ کر حضرت آدم ؑکو سجدہ کیا تھا اور یہ سجدہ کرنا ان پر واجب تھا اور یہ حضرت آدم ؑکی عبادت نہیں تھی بلکہ خدا کی عبادت تھی اور آدم ؑکو سجدہ ان کے احترام اور تعظیم کی خاطر تھا کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام کی صلب میں محمد و آل محمد علیہم السلام کا نور تھا۔ اسی طرح برادران یوسف اور ان کے والد نے بھی حضرت یوسف کو خدا سمجھ کر سجدہ نہیں کیا ۔
[44]۔ جدید وہابی فرقہ قبر پیغمبر ﷺ اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی قبور کا بوسہ دینے کو شرک سمجھتے ہیں حالانکہ اس کا شرک سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
[45]۔سورہ شوری، آیت ۲۳۔
[46]۔صواعق محرقہ۔
[47]۔مدینۃ المعاجز اور القطرہ کا ترجمہ اردو زبان میں طبع ہوچکا ہے۔
[48]۔ازالہ شبھہ: جب خدا کے لیے کوئی خاص مکان نہیں ہے وہ ہر جگہ حاضر و ناظر ہے تو پھر دعا کرتے وقت ہاتھوں کو آسمان کی طرف کیوں کیاجاتا ہے؟
اس کا جواب یہ ہے : اگرچہ خدا کے لیے کوئی خاص مکان نہیں ہے وہ ہر جگہ حاضر وناظر ہے لیکن چونکہ رزق کا معدن آسمان ہے اور عرش اللہ کی باعظمت مخلوق ہے۔ لذا حکم دیا گیا ہے دعا کے وقت اپنے ہاتھوں کو اوپر آسمان عرش کی طرف بلند کیا کریں اور روزی چونکہ آسمان سے نازل ہوتی ہے چنانچہ قرآن میں ارشاد حق تعالیٰ ہے:{ هُوَ الَّذِي يُرِيكُمْ آيَاتِهِ وَيُنَزِّلُ لَكُمْ مِنَ السَّمَاءِ رِزْقًا}(سورہ مبارکہ غافر، آیت ۱۳) وہی وہ ہے جو تمہیں اپنی نشانیاں دکھلاتا ہے اور تمہارے لیے آسمان سے رزق نازل کرتا ہے۔
چونکہ رحمت اور برکات کا نزول وہاں سے ہوتا ہے لذا بوقت دعا ہاتھوں کو اوپر بلند کیا جاتا ہے۔
[49]۔سورہ اعراف، آیت ۱۴۳۔
[50]۔سورہ انعام، آیت ۱۰۳۔
[51]۔سورہ قیامت، آیت ۲۲، ۲۳۔
[52]۔نہج البلاغہ، خطبہ ۱۷۹۔