شراکت کے احکام
ربّ العزت کا ارشاد ہے:
{ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً رَجُلا فِيهِ شُرَكَاءُ مُتَشَاكِسُونَ}
(سورہ زمر، آیت ۲۹)
مسئلہ ۵۶۷:شراکت یہ ہے کہ ایک مال کے چاہے وہ مال عین ہو یا ذمہ مشاع طور پر نصف، ثلث یا اس طرح کی نسبت کے اعتبار سے، دو یا دو سے زیادہ مالک ہوں۔
مسئلہ ۵۶۸: شراکت ، عقود جائزہ سے ہے طرفین اس عقد کو فسخ کرسکتے ہیں طرفین میں سے اگر ایک عقد کو فسخ کردے تو دوسرے کے لیے اس مشترک مال میں تصرف کرنا جائز نہیں ہے۔
مسئلہ ۵۶۹: جو اشخاص شراکت کے ذریعے ایک دوسرے کے شریک کار بن جائیں ان کے لیے ضروری ہے کہ بالغ اور عاقل ہوں اور ارادے اور اختیار کے ساتھ شراکت کریں اور یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے مال میں تصرف کرسکتے ہوں لہذا چونکہ سفیہ شخص (جو اپنا مال بے ہودہ کاموں پر خرچ کرتا ہے) اپنے مال میں تصرف کا حق نہیں رکھتا اگر وہ کسی کے ساتھ شراکت کرے تو وہ شراکت صحیح نہیں ہے۔
مسئلہ ۵۷۰: اگر دو یا زیادہ ا فراد اپنے کام سے ملنے والی مزدوری میں شراکت کریں مثلاً اگر چند مزدور آپس میں طے کریں کہ ہمیں جتنی بھی مزدوری ملے گی آپس میں تقسیم کرلیں گے تو یہ شراکت صحیح نہیں ہے۔ ہاں اگر ان میں سے ہر ایک آپس میں ایک بات پر مصالحت کرلے کہ ایک معینہ مدت تک اپنی آدھی کمائی اور اس کی آدھی کمائی آپس میں بانٹ لیں اور وہ بھی اسے قبول کرلے تو وہ اپنی مزدوریوں میں شریک ہوجائیں گے۔
اور اگر کسی عقد لازم کے ضمن میں شرط رکھیں کہ دونوں میں سے ہر ایک اپنی آدھی مزدوری دوسرے کو دے تو اس شرط پر عمل کرنا ضروری ہے۔
مسئلہ ۵۷۱: اگر شرکاء میں سے کوئی مر جائے یا دیوانہ یا بے ہوش ہوجائے تو دوسرے شرکاء شراکت کے مال میں تصرف نہیں کرسکتے اور اگر ان میں سے کوئی سفیہ ہوجائے یعنی اپنا مال بیہودہ کاموں میں صرف کرے تو اس صورت میں بھی یہی حکم ہے۔
مسئلہ ۵۷۲: کافر ذمی کے ساتھ شراکت مکروہ ہے۔