خمس
ارشاد رب العزت ہے:
{ وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِنْ كُنْتُمْ آمَنْتُمْ بِاللَّهِ}
(سورہ انفال، آیت ۴۱)
خمس فروعات دین میں سے ایک فرع ہے اور اصل خمس کا وجوب، ضروریات دین سے ہے جس کا انکار موجب کفر ہے۔ خمس کے بارے میں اختلاف اس کی بعض جزئیات اور مصادیق میں ہے ۔ جس طرح اصل نماز کا وجوب ضروریات دین سے ہے اور نماز کے بارے میں اختلاف اس کے بعض مسائل میں ہے۔ نماز کے بعض مسائل میں اختلاف ہونے کے باوجود خود نماز ضروریات دین سے ہے اسی طرح خمس کے بعض مسائل میں اختلاف ہونے کے باوجود، اصل خمس ضروریات دین سے ہے۔ اصل خمس کا وجوب بنصّ قرآن ثابت ہے۔
خداوند متعال نے حضرت محمد مصطفی ﷺ اور ان کی آل پر زکوۃ کو حرام قرار دیا ہے کیونکہ یہ لوگوں کے ہاتھوں کی میل کچیل ہے ، اس کے عوض خمس کو قرار دیا اوریہ ایک فریضہ ہے۔
شریعت میں خمس کا مسئلہ خاص توجہ کا حامل ہے۔ امام زمانہ علیہ السلام کا فرمان ہے کہ جس شخص نے ہمارا حق کھایا تو گویا اس نے جہنم کی آگ کھائی ہے اور اس کا انجام جہنم ہے۔
مسئلہ ۵۰۲:سات چیزوں میں خمس واجب ہے:
1. سال کا خرچ نکالنے کے بعد جو کمائی بچ جائے
2. کان
3. خزانہ
4. مال غنیمت
5. وہ جواہرات کہ جو دریا سے نکالے جاتے ہیں
6. وہ حلال مال جو کہ حرام مال سے مخلوط ہوجائے
7. وہ زمین جس کو کافر ذمّی مسلمان سے خریدے
جس طرح ہر شخص جب بالغ ہوجائے تو نماز اور روزے کو انجام دینے کی فکر میں ہوتا ہے اسے چاہیے کہ وہ خمس اور زکات کی ادائیگی اور باقی واجبات کو بھی ادا کرنے پر توجہ کرے اور اسے چاہیے کہ ضروری مسائل سے آگاہ ہو۔
ارشاد رب العزت ہے:
{ وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِنْ كُنْتُمْ آمَنْتُمْ بِاللَّهِ}
(سورہ انفال، آیت ۴۱)
خمس فروعات دین میں سے ایک فرع ہے اور اصل خمس کا وجوب، ضروریات دین سے ہے جس کا انکار موجب کفر ہے۔ خمس کے بارے میں اختلاف اس کی بعض جزئیات اور مصادیق میں ہے ۔ جس طرح اصل نماز کا وجوب ضروریات دین سے ہے اور نماز کے بارے میں اختلاف اس کے بعض مسائل میں ہے۔ نماز کے بعض مسائل میں اختلاف ہونے کے باوجود خود نماز ضروریات دین سے ہے اسی طرح خمس کے بعض مسائل میں اختلاف ہونے کے باوجود، اصل خمس ضروریات دین سے ہے۔ اصل خمس کا وجوب بنصّ قرآن ثابت ہے۔
خداوند متعال نے حضرت محمد مصطفی ﷺ اور ان کی آل پر زکوۃ کو حرام قرار دیا ہے کیونکہ یہ لوگوں کے ہاتھوں کی میل کچیل ہے ، اس کے عوض خمس کو قرار دیا اوریہ ایک فریضہ ہے۔
شریعت میں خمس کا مسئلہ خاص توجہ کا حامل ہے۔ امام زمانہ علیہ السلام کا فرمان ہے کہ جس شخص نے ہمارا حق کھایا تو گویا اس نے جہنم کی آگ کھائی ہے اور اس کا انجام جہنم ہے۔
مسئلہ ۵۰۲:سات چیزوں میں خمس واجب ہے:
1. سال کا خرچ نکالنے کے بعد جو کمائی بچ جائے
2. کان
3. خزانہ
4. مال غنیمت
5. وہ جواہرات کہ جو دریا سے نکالے جاتے ہیں
6. وہ حلال مال جو کہ حرام مال سے مخلوط ہوجائے
7. وہ زمین جس کو کافر ذمّی مسلمان سے خریدے
جس طرح ہر شخص جب بالغ ہوجائے تو نماز اور روزے کو انجام دینے کی فکر میں ہوتا ہے اسے چاہیے کہ وہ خمس اور زکات کی ادائیگی اور باقی واجبات کو بھی ادا کرنے پر توجہ کرے اور اسے چاہیے کہ ضروری مسائل سے آگاہ ہو۔