وصیت کے احکام
ارشاد ربّ العزت ہے:
{كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالأقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ}
(سورہ بقرہ، آیت ۱۸۰)
مسئلہ ۶۵۸:وصیت یہ ہے کہ انسان تاکید کرے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے لیے فلاں فلاں کام کیئے جائیں یا
یہ کہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے مال کی کچھ مقدار فلاں شخص کی ملکیت ہوگی یا یہ یوں کہے کہ اس کے مال کی کچھ مقدار کا کسی کو مالک بنا دیا جائے یا اسے وقف کردیا جائے یا نیک کاموں میں صرف کیا جائے یا اپنی اولاد کے لیے اور ان لوگوں کے لیے جو اس کی کفالت میں ہوں کسی شخص کو نگران اور سرپرست مقرر کرے جس شخص کو وصیت کی جائے اسے وصی کہتے ہیں اور وصیت کرنے والے کو موصی کہتے ہیں۔
مسئلہ ۶۵۹: وصیت کرنے والے میں جن شرائط کا پایا جانا ضروری ہے ان میں سے بعض یہ ہیں:
- 1.عاقل ہو
- 2.بالغ ہو
- 3.اپنے ارادہ اور اختیار سے وصیت کرے نہ کہ مجبور ہو
مسئلہ ۶۶۰:بناء بر احتیاط وصی کا مسلمان ہونا ضروری ہے نیز عاقل ہو اور قابل وثوق ہو بناء بر احتیاط بالغ ہو۔
مسئلہ ۶۶۱: جب موت کی نشانیاں ظاہر ہوں تو اس پر لازم ہے کہ وہ امانتوں کو ان کے مالکین کو واپس کرے یا ورثاء کو بتائے۔ اپنے قرضوں کو ادا کرے اگر اداء کرنے پر قادر نہ ہو تو اس بارے میں وصیت کرے۔
خمس و زکوۃ اور مظالم کو فوراً اداء کرے۔ اپنے نماز ر وزے کے بارے میں کسی کو اجبر بنانے کی وصیت کرے ۔ اپنی قضا نماز وغیرہ کے بارےمیں اپنے بڑے بیٹے کو بتائے ۔ اگر اپنا مال کسی دوسرے کے پاس رکھا ہو یا مخفی کر رکھا ہوتو اپنے ورثاء کو بتائے۔
مسئلہ ۶۶۲: مرنے والا اپنے مال سے ایک سوم مال کی وصیت کرسکتا ہے۔ اگر اس سے زائد وصیت کرے تو وہ وصیت اس کے ورثاء کی اجازت پر موقوف ہوگی اگر وہ اجازت دیں تووصیت صحیح ہے ورنہ زائد کی نسبت وصیت باطل ہے، اگر بعض ورثہ اجازت دیں اور بعض اجازت نہ دیں تو جس نے اجازت دی ہے اس کے حصہ کی نسبت وصیت نافذ ہوگی۔
مسئلہ ۶۶۳: استطاعت کےساتھ واجب حج اور مالی حقوق مانند خمس و زکوۃ مظالم کو اصل ترکہ سے نکالا جائے گا خواہ اس بارے میں مرنے والے نے وصیت کی ہو یا نہ ۔