اجتہاد اور تقلید کے بارے میں شبہات کے جوابات

 

خداوند متعال نے انسان کو اشرف المخلوقات خلق کیا ہے حیوانات بھی خدا کی مخلوق ہیں لیکن ان پر کوئی شرعی حکم لاگو نہیں ہے یعنی ان پر نہ کوئی شی واجب ہے اور نہ کوئی شی حرام ہے چونکہ خدا نے ان کو نعمت عقل سے محروم رکھا ہے۔

لیکن خدا نے انسان کو عقل عطا کی ہے اور اس پر وظائف شرعی مقرر فرمائے ہیں۔

پیغمبر اسلام ﷺ کی موجودگی میں لوگ حضورؐ سے دینی مسائل پوچھا کرتے تھے اور عمل کرتے تھے۔

حضورؐ کے بعد ائمہ طاہرین ؑ کے دور میں اہل بیت علیہم السلام سے تعلق رکھنے والے ائمہ طاہرین ؑ سے اپنے مسائل پوچھا کر تے تھے([1])۔ چونکہ ائمہ طاہرین علیہم السلام کے دور میں بنی امیہ اور بنی عباس کے ظالم حکمران رہے ہیں وہ ائمہ طاہرین علیہم السلام اور ان کے شیعوں پر ظلم کرتے تھے لذا ان کو بعض اوقات تقیہ کرنا پڑتا تھا اور بعض حالات میں وہ شدت تقیہ میں تھے ۔ لذا بعض روایات ان سے تقیۃً صادر ہوئی ہیں۔

نیز بعض لوگوں نے بعض روایات کو عمداً، کذباً، معصومین علیہم السلام کی طرف منسوب کردیا تھا اور دور دراز رہنے والے مومنین کے لیے ہر وقت دینی مسائل کے لیے مدینہ منورہ میں امام معصوم کے پاس جانا ممکن نہیں تھا۔ یہ جو عام طور پر سوال کیا جاتا ہے کہ فقہاء کے درمیان بعض فتاویٰ میں اختلاف کیوں ہے اس کی ایک وجہ روایات کا اختلاف ہے۔ چونکہ بعض مسائل میں روایات مختلف نقل ہوئی ہیں لذا بعض کی نظر میں مثلاً یہ روایت معتبر ہے اور بعض کی نگاہ میں قرائن و شواہد کے ساتھ دوسری روایت معتبر ہے۔ لذا نتیجۃ فتوی بھی مختلف ہوگا۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے اختلافی روایات کے حل کا طریقہ سمجھایا ہے جیسا کہ مقبولہ عمر بن حنظلہ کی تفصیلی روایت جو کہ قضاء کے مربوط ہے سے معلوم ہے جس کا خلاصہ یہ ہے راوی کہتا ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے دو شخصوں کے بارے میں سوال کیا جو کہ قرضہ یامیراث کے بارے میں جھگڑا رکھتے تھے اور انہوں نے اپنے وقت کے حاکم یا قاضی کی طرف رجوع کیا تھا کیا ان کے لیے ان کے فیصلہ پر وہ مال حلال تھا؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا جو بھی کسی حاکم (جو کہ خدا اور رسول کی طرف سے نہ ہو) کی طرف رجوع کرے خواہ وہ مدعی حق پر ہو یا نہ ہو، اس نے طاغوت کی طرف رجوع کیا ہے لذا وہ مال حرام ہوگا۔

راوی، عمر بن حنظلہ کہتا ہے کہ میں نے عرض کیا پس یہ دونوں کیا کریں؟ فرمایا: جو تم میں (یعنی شیعوں میں) جس نے ہماری حدیث کو روایت کیا ہو اور ہمارے حلال اور حرام کو جانتا ہو اور ہمارے احکام کو پہچانتا ہو (یعنی مجتہد اور فقیہ ہو) پس اس کے حکم پر راضی ہوجائیں۔ میں نے ایسے (عالم فقیہ) کو تم پر حاکم قرار دے دیا ہے۔ جب وہ ہمارے حکم کے مطابق حکم کرے اور وہ اسے قبول نہ کرے اس نے حکم خدا کو خفیف سمجھا ہے اور اس نے ہمارے حکم کو ردّ کردیا ہے اور ہمارے حکم کو ردّ کرنے والا خدا کے حکم کو ردّ کرنے والا ہے اوریہ چیز خدا کے ساتھ شرک کرنے کی حدّ پر ہے۔ راوی کہتا ہے میں نے عرض کیا: ہر ایک نے ہمارے اصحاب سے ایک شخص کو چن لیا ہو اور وہ جھگڑا کرنے والے ان کے حق میں راضی ہوں کہ وہ فیصلہ کریں پس دونوں عالم حکم کرنے میں اختلاف کریں اور آپ کی حدیثوں کے بارے میں اختلاف رکھتے ہوں، تو کیا کیا جائے؟ فرمایا: ان میں حکم اسی کا ہے جو اعدل، افقہ، اور حدیث میں اصدق (سب سے زیادہ سچا) ہے اور جو ان میں اورع ہے اس کا حکم ،حکم ہے اور دوسرے کے حکم کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا۔ راوی کہتا ہے میں نے عرض کیا دونوں (راوی) عالم عادل اور ہمارے اصحاب کے درمیان مورد رضایت ہیں۔ ان میں کوئی دوسرے پر برتری نہیں رکھتا،(تو پھر کیا کریں) تو فرمایا: پھر دیکھا جائے کہ ان کی جو روایات ہم سے نقل ہوئی ہیں اور جس کے مطابق انہوں نے حکم کیا ہے وہ روایت جو تیرے اصحاب کے درمیان اجماعی اور اتفاقی ہے ان کے حکم میں سے اس کو لے لیا جائے اور شاذ جو کہ تیرے اصحاب کے نزدیک مشہور نہیں ہے اس کو ترک کردیا جائے چونکہ اجماعی اور اتفاقی روایت میں ریب نہیں ہے چونکہ امور تین طرح کے ہیں ایسے مسائل جن کا رشد(درستگی) معلوم ہے ان کی اتباع کی جائے۔ اور ایسے مسائل جن کا غیّ (ناحق اور گمراہی ہونا) ہونا معلوم ہے ان سے اجتناب کیا جائے اور بعض امور مشکل ہیں ان کے حکم کو خدا اور رسول کی طرف پلٹا دیا جائے۔ رسول خدا ؐ نے فرمایا واضح حلال اور واضح حرام موجود ہیں اور ان کے درمیان شبہات بھی ہیں جس نے محرمات سے شبہات کو ترک کیا وہ نجات پاگیا اور جس نے شبہات کو لیا وہ محرمات میں واقع ہوجائے گا اور ندانستہ طور پر ہلاک ہوجائے گا۔

راوی کہتا ہے میں نے عرض کیا اگر دونوں خبریں آپ سے مشہور ہوں جن کو آپ سے ثقات نے روایت کیا ہو تو پھر کیا کیا جائے؟ فرمایا: دیکھا جائے کہ جس کا حکم قرآن اور سنت کے موافق ہے۔ اور عامہ کے مخالف ہے اس کو لے لیا جائے گا اور جو روایت قرآن و سنت کے مخالف اور عامہ کے موافق ہو اس کو چھوڑ دیا جائے گا۔

راوی عرض کرتا ہے میں آپ پر قربان ہوجاؤں ، کیا فرماتے ہیں اگر دو فقیہوں نے حکم کو قرآن و سنت سے پہچانا ہو اور ہم ان دو روایتوں سے ایک رویات کو عامہ کے موافق پاتے ہیں اور ایک روایت کو مخالف پاتے ہیں ان دو روایتوں میں سے کس کو لیا جائے (یعنی کس پر عمل کیا جائے) تو فرمایا: جو عامہ کے مخالف ہو اس میں رشاد پایا جاتا ہے تو میں نے عرض کیا میں آپ پر قربان ہوجاؤں اگر دونوں خبریں (روایتیں) ان کے موافق ہوں توپھر کیا کیا جائے؟ فرمایا: دیکھا جائے کہ ان کے حکّام اور قضاۃ کس روایت کی طرف زیادہ میل رکھتے ہیں اس کو ترک کردیا جائے اور دوسری روایت کو لے لیا جائے۔ میں نے عرض کیا اگر ان کے سب حکام دونوں روایتوں پر موافق اور ان پر عمل کرتے ہوں تو پھر؟ فرمایا: اگر ایسی صورت پیش آجائے تو صبر کرنا یہاں تک کہ اپنے امام ؑ سے ملاقات کرنا۔ چونکہ شبہات کے وقت ٹھہر جانا، یہ ہلکات کے اندر کود جانے سے بہتر ہے۔([2])

اس حدیث سے کئی مطالب کا استفادہ ہوتا ہے وہ یہ کہ ممکن ہے کہ ائمہ طاہرین ؑ سے راویوں نے مختلف روایات نقل کی ہوں۔ اگرچہ بحسب واقع سب ائمہ ؑ کا فرمان ایک ہی فرمان ہے اور ان کے قول میں تضاد نہیں ہوتا۔ لیکن تقیہ کی وجہ سے ممکن ہے مصلحۃ، بھی احکام صادر فرماتے ہوں، جیسا کہ روایات سے ظاہر ہے۔

چنانچہ ممکن ہے کہ ایک ہی امام سے بھی تقیہ کی وجہ سے مختلف روایات حکایت کی گئی ہوں۔ کما فی بعض الروایات([3])

 

راوی دو

طرح کے

تھے۔

 
اس حدیث سے روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ امام علیہ السلام نے مختلف احادیث پر عمل کرنے کا طریقہ سمجھایا ہے کہ جب دو حدیثیں مختلف آپ کے پاس پہنچیں تو آپ نے کس پر عمل کرنا ہے اور کیسے اجتہاد کرنا ہے۔ نیز امام علیہ السلام کے شاگرد جو کہ راوی حدیث ہوتے تھے ان کی دو قسمیں ہیں ممکن ہے بعض صرف راوی بما ہو راوی ہو حدیث کو سنا اور وہی الفاظ دوسروں کے سامنے نقل کردیئے۔ اور بعض راوی ان احادیث سے استنباط کرنا بھی جانتے تھے اور فقیہ تھے جیسا کہ اس روایت میں فقیہان کا لفظ آیا ہے، أرأیت ان کا ن الفقیہان عرفا حکمہ من الکتاب و السنۃ فوجدنا أحد الخبرین موافقا للعامہ و الآخر مخالفا بأی الخبرین یؤخذ؟

 

امام صادق ؑ کا ابان بن تغلب کو فتوی دینے حکم دینا۔

 
تو معلوم ہوا کہ امام صادق علیہ السلام کے شاگردوں میں فقہاء بھی تھے جو کہ فتوی بھی دیتے تھے بلکہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے بعض کو مسجد میں بیٹھ کر فتوی دینے کا حکم دیا تھا۔ جیسا کہ ابان بن تغلب صحابی کو فرمایا: اجلس فی مسجد المدینۃ و أفت الناس فانی أحب أن یری فی شیعتی مثلک۔

مدینہ کی مسجد میں بیٹھ اورلوگوں کو فتوی دیا کرو میں چاہتا ہوں کہ میرے شیعوں میں تجھ جیسے دیکھے جائیں۔ یعنی لوگوں کو پتہ چلے کہ یہ فقیہ، امام جعفر صادق ؑ کا شاگرد ہے۔ یعنی امام صادق ؑ کی شاگردی میں اسے یہ منزلت ملی ہے۔ مخفی نہ رہے کہ ابان بن تغلب تیس ہزار حدیث کا راوی ہے۔

عبد اللہ بن یعفور نے جب امام صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ میں ہر وقت آپ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوسکتا تو مومنین میرے پاس آتے ہیں اور مجھ سے سوال کرتے ہیں میرے پاس اس کا جواب نہیں ہوتا تو میں کیا کروں؟ تو فرمایا: تجھے ثقفی سے کیا مانع ہے یعنی محمد بن مسلم سے پوچھ لیا کرو، فما یمنعک عن الثقفی، یعنی محمداٍ بن مسلم۔([4])

 

ابو بصیر کی طرف رجوع کرنے کا حکم دینا۔

 
شعیب عقرقوفی نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا: بسا اوقات اپنے مسائل درپیش آتے ہیں کس سے ان کو پوچھیں؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: علیک بالاسدی یعنی ابا بصیر([5])، اسدی یعنی ابو بصیر کی طرف رجوع کر اور اس سے اپنے دینی مسائل پوچھا کر۔

نوٹ: مخفی نہ رہے کہ غیر عالم کا، عالم کی طرف رجوع کرنا اور اس کے قول پر عمل کرنے کا نام ہی تو تقلید ہے۔

 

زکریا بن آدم کی تعریف اور انکی طرف رجوع کرنے کا حکم دینا۔

 
علی بن مسیب ہمدانی نے امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ میرا وطن دور ہے میں ہر وقت آپ کی خدمت میں نہیں پہنچ سکتا میں اپنے دینی مسائل کو کس سے لوں؟ تو فرمایا: زکریا بن آدم قمی، دین و دنیا پر امین ہے۔ علی بن مسیب کہتا ہے جب میں واپس پلٹا تو اپنی حاجت کے مسائل کو زکریا بن آدم سے پوچھا۔([6])

عبد العزیز بن مہتدی اور حسن بن علی بن یقطین نے امام رضا ؑ کی خدمت میں عرض کیا میں اپنے دینی مسائل جو مجھے درپیش آتے ہیں میں آپ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوسکتا۔ کیا یونس بن عبد الرحمن ثقہ ہے میں اس سے اپنے دینی مسائل جن کی مجھے احتیاج ہوتی ہے کو اس سے أخذ کرلوں (یعنی ان سے دینی مسائل پوچھ لیا کروں؟) فرمایا: ہاں۔([7])

 

فتوی دینے کا حکم دینا۔

 
امام جعفر صادق علیہ السلام نے معاذ بن مسلم نحوی کو فرمایا: مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ تو جامع میں بیٹھتا ہے اور لوگوں کو فتوے دیتا ہے؟ راوی نے عرض کیا: جی ہاں۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: اصنع کذا، ایسے ہی کیا کر۔([8])

امام صادق علیہ السلام نے ایک حدیث میں فرمایا: اگر زرارہ، ابوبصیر، لیث مرادی، محمد بن مسلم اور برید عجلی یہ لوگ نہ ہوتے تو کوئی استنباط نہ کرسکتا۔ یہ دین کے حافظ اورمیرے باپ کے حلال اور حرام پر امین ہیں۔([9])

 

رواۃ (فقہاء) کا قول، امام علیہ السلام کا قول ہے

 
احمد بن اسحاق نے ابو الحسن علیہ السلام اور ابو محمد ؑ کی خدمت میں عرض کیا میں اپنے دینی مسائل کو کس سے لوں کس کے قول کو قبول کروں؟ فرمایا عَمری اور اس کا بیٹا یہ دونوں ثقہ ہیں جو کچھ تجھ کو مجھ سے بتائیں انہوں نے مجھ سے ہی پہنچایا ہے جو کچھ وہ مجھ سے کہیں پس مجھ سے ہی انہوں نے کہا ہے ان دونوں کے قول کو سن اور ان کی اطاعت کر یہ دونوں ثقہ اور امین ہیں([10])۔ پس معلوم ہوا کہ ان علماء کا قول امام علیہ السلام کا قول ہے اور ان کی اطاعت ضروری ہے۔

 

رواۃ (فقہاء) کی طرف رجوع کرنے کا     حکم دینا۔

 
اسحاق بن یعقوب نے محمد بن عثمان عمری کے ذریعہ امام زمان ؑ سے اپنے مشکل دینی سؤالات پوچھے تو امام زمان ؑ کے خط مبارک سے جو توقیع وارد ہوئی اس میں (جوابات بھی دیئے گئے تھے) امام نے فرمایا: وأما الحوادث الواقعہ فارجعوا فیہا الی رواۃ حدیثنا فانہم حجتی علیکم و أنا حجۃ اللہ؛ رونما ہونے والے حوادث میں ہمارے احادیث کے رواۃ (فقہاء) کی طرف رجوع کرو کیونکہ یہ تم پر حجت ہیں اور میں حجت اللہ ہوں۔([11])

سندی مناقشہ مقام میں درست نہیں کیونکہ یہ مجموعی طور پر مقام میں کفایت کرتی ہیں۔

پس معلوم ہوا کہ اصل اجتہاد بھی صحیح ہے اور ائمہ طاہرین علیہم السلام نے استنباط کرنے کا طریقہ بھی بتایا ہے جیسا کہ عبد الاعلی مولی سالم نے امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا میں گرا ہوں اور میرا ناخن ٹوٹ گیا ہے میں نے اپنی انگلی پر پٹی باندھی ہے پس میں کیسے وضو کروں؟

 

استنباط کا طریقہ بتانا۔

 
امام علیہ السلام نے فرمایا: یعرف ہذا و أشباہہ من کتاب اللہ عزوجل قال اللہ تعالی (ما جَعَلَ عَلَیکُم فی الدِّینِ مِن حَرَج) امسح علیہ۔ اس مسئلہ میں اور اس کے مانند مسائل کو قرآن سے پہچانا اور سمجھا جاسکتا ہے خدا نے فرمایا ہے کہ اس نے دین میں تم پر حرج اور سختی کو قرار نہیں دیا (پس) اس پٹی کے اوپر مسح کر([12])، یعنی جتنی مقدار پر پٹی ہے اسی کے اوپر اپنا گیلا ہاتھ پھیر لے، یہ روایت حسنہ ہے۔ اور امام ؑ نے اصول بھی تعلیم فرمائے ہیں چنانچہ امام رضا ؑ سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: علینا القاء الاصول و علیکم التفریح؛ ہم پر ہے کہ تمہیں اصول و (قواعد) بتائیں اور اس سے تفریح کرنا یہ تمہارا کام ہے۔ چنانچہ جعفر صادق علیہ السلام سے بھی یہی مطلب منقول ہے۔([13])

پس معلوم ہوا کہ معصومین علیہم السلام نے استنباط کا طریقہ بھی اپنے شاگردوں کو سمجھایا ہے اور ان کی مدح فرمائی اور ان کو فتوی دینے کا حکم بھی فرمایا ہے اور ان علماء و فقہاء کا قول، گویا امام علیہ السلام کا قول ہے چونکہ فقہاء اپنی طرف سے کوئی فتوی نہیں دیتے قرآن اور معصومین ؑ کے فرامین سے فتوی دیتے ہیں۔([14])

مذہب شیعہ میں قیاس حرام ہے کوئی شیعہ فقیہ قیاس سے کام نہیں لیتا۔ دینی وظائف میں معصومین علیہم السلام نے رواۃ یعنی علماء و فقہاء کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے او ر ان کی اطاعت کو ضروری قرار دیا ہے۔

مخفی نہ رہے کہ ائمہ طاہرین علیہم السلام کےزمانے میں اجتہاد کرنا آسان تھا چونکہ رواۃ خود اہل لسان (عرب زبان) تھے اور راوی غالباً ایک دوسرے کو پہچانتے تھے لیکن اس دور میں چونکہ ہم میں اور ائمہ طاہرین علیہم السلام میں زمان کے حوالے سے فاصلہ زیادہ ہوچکا ہے امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت ۲۶۰ھ؁ میں ہوئی پھر غیبت صغری([15]) کے بعد غیبت کبری کا دور شروع ہوچکا ہے۔ امام زمانہ علیہ السلام پردہ غیب میں ہیں اور مشیت خدا کے ساتھ ظہور فرمائیں گے۔

 

فتاوی کے اختلاف کی وجوہات

 
لذا اس دور میں اجتہاد مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ سب راویوں کے حالات ہم تک نہیں پہنچے دوسری وجہ لغات کا اختلاف ہے تیسری وجہ خود لغت میں ایک لفظ کے ممکن ہے کئی معانی ہوں۔

 

علم حدیث کے قواعد کی ضرورت

 
چوتھی وجہ اس دور میں جدید سے جدید موضوعات درپیش ہیں اور جدید مسائل سامنے آرہے ہیں چونکہ ترقی کا زمانہ ہے۔ اور ہمارے مجتہد ین کا عمدہ استنباط قرآن اور حدیث (فرامین معصومین علیہم السلام) سے ہوتا ہے اور قیاس ہمارے مذہب میں حرام ہے، اور بعض احادیث آپس میں متعارض ہیں جن کی وجہ سے فتوی میں بھی اختلاف بدیہی امر ہے۔ روایات کی صحت و سقم کی تشخیص کے لیے علم رجال اور حدیث کے لیے قواعد و اصول کی ضرورت ایک واضح امر ہے تاکہ معلوم ہوسکے کہ اس روایت کا راوی کون ہے۔ شیعہ عادل تھا یا صرف شیعہ تھا، یا غیر شیعہ تھا۔ اس کی توثیق کتب میں آئی ہے یا کہ نہیں آئی روایت کی سند میں سب راویوں کا ذکر آیا ہے یا بعض راویوں کا ذکر نہیں آیا تو اس جہت سے حدیث کے مراتب میں فرق پڑتا ہے۔ لذا سنی و شیعہ علماء و محدثین کو علم حدیث اور علم رجال کی ضرورت ہوئی اور اس علم کے ماہرین نے قواعد اور اصول ذکر فرمائے ہیں تاکہ معلوم ہوسکے کہ یہ حدیث صحیح ہے یا حسن ہے یا ضعیف ہے یامرسل ہے۔ فتوی میں اختلاف کی ایک وجہ یہ ہے کہ ممکن ہے فلاں راوی اس مجتہد کے نزدیک ثقہ ہو اور دوسرے مجتہد کے نزدیک بعض قرائن کی وجہ سے ثقہ نہ ہو جس کے نتیجے میں فتوی میں اختلاف آجائے گا لیکن یہ اختلاف مکلفین کے لیے ضرر رساں نہیں ہے چونکہ جس نے جس جامع الشرائط مجتہد کی طرف رجوع کیا اس کا فتوی اس شخص کے حق حجت ہے۔ غیبت کبری کے زمانے میں دینی مسائل کے سلسلے میں مومنین کا وظیفہ جامع الشرائط فقہاء کی طرف رجوع کرنا ہے۔ چونکہ امام معصوم ؑ سے منقول ہے : من کان من الفقہاء صائناً لنفسہ و حافظاً لدینہ و مخالفاً لہواہ فللعوام ان یقلدوہ۔

کہ جو شخص فقہاء سے اپنے نفس کو بچانے والا اور اپنے دین کی حفاطت کرنے والا اور ہوائے نفس کی مخالفت کرنے والا ہو پس عوام کو چاہیے کہ اس فقیہ کی تقلید کرلیں۔ ([16])

اگر یہ روایات نہ بھی ہوتیں تو ویسے بھی ہر عاقل انسان کا عقل یہ حکم لگاتا ہے کہ ہر فنّ میں اس فنّ کے ماہرین کی طرف رجوع کیا جائے۔ اور دینی مسائل کے ماہر فقہاء ہیں جن لوگوں نے اپنی زندگیاں دین کی تعلیم اور مطالعہ میں صرف کی ہیں۔ اور خصوصاً غیبت کبری کے زمانے میں یہ دین کے حافظ ہیں مرجعیت، شیعہ کی مرکزیت ہے۔ اس دور میں اجتہاد کے خلاف پروپیگنڈہ، دشمن کی سازش اور مذہب شیعہ کو ضعیف کرنے کی ناکام کوشش ہے۔ اگر اجتہاد و تقلید کا انکار کردیا جائے تو پھر اس دور میں جو جدید مسائل درپیش ہیں ان مسائل مستحدثہ کا جواب کون دے گا؟ مخفی نہ رہے کہ مختلف افراد کو استعمار نے خرید رکھا ہے جو کہ مسلّمات مذہب شیعہ کا انکار کر رہے ہیں اور شیعوں کے اندر عقیدتی اختلافات ایجاد کرکے مذہب شیعہ کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں۔

 

مومنین کا وظیفہ

 
سب مومنین و مومنات کا وظیفہ یہ ہے کہ دشمنی کی ہر سازش کے مقابلے میں بیدار رہیں آپس میں متفق و متحد رہیں اپنے اپنے وظیفہ شرعی کی نسبت صحیح العقیدہ اور باعمل علماء و فقہاء کی طرف رجوع کریں۔ بد عقیدہ اور مشکوک افراد سے اجتناب کریں۔ تقلید کے حوالے سے صرف جامع الشرائط فقہاء کی طرف رجوع کریں چونکہ اس دور میں بعض نااہلوں نے بھی اجتہاد کے دعوے کردیے ہیں۔ مستند علماء کی کتب کا مطالعہ کریں۔

اور جو لوگ مذہب شیعہ کو ضعیف کرنا چاہتے ہیں یا کر رہے ہیں ان سے دوری اختیار کریں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی کرتے رہیں اور محمد و آل محمد علیہم السلام کی ولایت پر ثابت قدم رہیں اور ان کی نورانی تعلیمات پر عمل کرکے دنیا و آخرت کی سعادت پر فائز ہوجائیں۔

خدایا! بحق محمد و آل محمد علیہم السلام ہم سب کو محمد و آل محمد علیہم السلام کی ولایت پر ثابت قدم رکھنا اور عزاداری امام حسین علیہ السلام کو معرفت اور اخلاص کے ساتھ ہمیشہ اقامہ کرنے کی توفیق عطا فرمانا۔ خدایا! سب مومنین و مومنات کی شرعی حاجات کو پورا فرما اور مشکلات کو آسان فرما اور اہل ایمان کی حفاظت فرما اور امام زمانہ ؑ کا ظہور جلد فرما اور ہم سب کو امام علیہ السلام کے اعوان و انصار میں سے قرار دے۔ بحق محمد و آل محمد علیہم السلام۔


 

 

 

 

 



[1]۔اور مشکل کے وقت عمر بن خطاب کو بھی حضرت علی علیہ السلام کی طرف مجبوری کی وجہ سے رجوع کرنا پڑتا تھا لذا بار بار کہا : لو لا علی لہلک عمر، اگر علی ؑ نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا، کما فی کفایۃ الطالب وغیرہ، اے کاش کہ سید الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کی وصیت کے مطابق سب مسائل میں لوگ اہل بیت ؑ کی طرف رجوع کرتے۔

[2]۔وسائل الشیعہ، ج۱۸، ص ۷۵۔ ۹۹، ابواب صفات القاضی، باب۹، ح۱، و باب ۱۱، ح۱ و کتب دیگر۔

[3]۔مخفی نہ رہے کہ خوف میں تقیہ کا جواز قران و سنت سے ثابت ہے بیشتر معلومات کے لیے ہماری تحقیقی کتاب صراط النجاۃ کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔

[4]۔وسائل الشیعہ، ج۱۸، ابواب صفات القاضی، باب۱۱، ح ۲۳، ص ۱۰۵۔

[5]۔وسائل الشیعہ، ج۱۸، ابواب صفات القاضی، باب ۱۱، ح ۱۵، ص ۱۰۳۔

[6]۔وسائل الشیعہ، ج۱۸، ابواب صفات قاضی، باب۱۱، ح ۲۷، ص ۱۰۶۔

[7]۔وسائل الشیعہ، ج۱۸، ابواب صفات قاضی، باب ۱۱، ح ۳۳، ۳۴، ۳۵، ص ۱۰۷۔

[8]۔رجال کشی، ص ۲۵۳؛ وسائل الشیعہ، ج۱۸، ح ۳۶، ص ۱۰۸۔

[9]۔وسائل الشیعہ، ج۱۸، ح ۲۱، ص ۱۰۴۔

[10]۔وسائل الشیعہ، ج۱۸، ابواب صفات القاضی، باب ۱۱، ح ۴، ص ۱۰۰۔

[11]۔حوالا بالا، ح۹، ص ۱۰۱۔

[12]۔تہذیب الاحکام، ج۱، ص ۳۸۶، ح ۱۰۹۷۔

[13]۔وسائل الشیعہ، ج۱۸، ابواب صفات قاضی، باب۶، ح ۵۲، ص ۴۱۔

[14]۔اور اگر مسئلہ میں حکم شرعی میں شک ہو آیت یا روایت یا اجماع نہ ہو تو اصل براءۃ جاری ہوگی جس کی دلیل حدیث رفع ہے اور شیعہ کے نزدیک ہر اجماع حجت نہیں ہے وہ اجماع حجت ہے جو کاشف قول معصوم ہو۔

[15]۔غیبت صغریٰ میں امام زمانہ ؑ کے چار نائب خاص تھے اور وہ صاحب کرامت بھی تھے جن کے ذریعہ سے لوگ امام ؑ سے اپنے سوالوں کے جواب دریافت کرتے تھے۔ بعبارت دیگر وہ لوگوں اور امام علیہ السلام کے درمیان خط و کتابت کا واسطہ تھے۔

[16]۔وسائل الشیعہ، ج۱۸، باب ۱۰ از ابواب صفات القاضی، ص ۹۵۔

© COPYRIGHT 2020 ALJAWAAD ORGAZNIZATION - ALL RIGHTS RESERVED
گروه نرم افزاری رسانه