عزاداری امام حسین اوررسول خدا ۖ
ترمذی شریف کی عبارت ملاحظہ ہو
عن سلمیٰ قالت دخلت علی ام سلمة وھی تبکی فقلت ما تبکیک قالت رأیت رسول اللہ تعنی فی المنام وعلی راسہ ولحیتہ التراب فقلت مالک یا رسول اللہ قال شھدت قتل الحسین انفاً.(١)
ترجمہ۔؛ سلمیٰ کہتی ہیں کہ میں حضرت ام سلمہ کے پاس گئی تو ان کو روتے ہوئے دیکھا میں نے پوچھاآپ کیوں رو رہی ہیں فرمایا میں نے سرور کائنات کو خواب میں دیکھا ہے کہ آپ کے سراور ریش مبارک پر خاک پڑی ہے تو پوچھا یا حضرتۖ آپ خاک آلود کیوں ہیں تو فرمایا: میں ابھی حسین کی شہادت کا منظر دیکھ رہا تھا ۔(۱)
ملاحظہ ہوں اہل اسنت کی معتبر کتابیں:
(۱)سنن ترمذی جلد٢ ص٢٤١
(۲)مشکوٰة شریف باب مناقب اہل بیت علیہم السلام ج٣،ص٢٧٦
(۳)صواعق محرقہ ص١٩٣ طبع مصر
(۴)ینابیع المودة ص٣٢٠ باب ٦٠
(۵)تاریخ دمشق ابن عساکر ص٢٦٣ حصہ ذکر امام حسین
(۶)تذکر ة الخواص ص٢٦٨
(۷)تاریخ الخلفاء سیوطی ص ٢٠٨
(۸)کفایة الطالب علامہ گنجی ص٤٣٣
مشکوة شریف مترجم با عناوین ج٣ ص٢٧٦ پر مذکور ہ روایت پر مترجم نے ایک عجیب حاشیہ لگایا ہے کہ یہ روایت قطعا غلط ہے اس لیے کہ تمام محدثین اورمؤرخین کا اس پر اتفاق ہے کہ حضرت ام سلمہ، شھادت حسین (ع) سے دو سال قبل وفات پاچکی تھیں۔
اما الجواب : اہل سنت کی معتبر کتاب سیرت حلبیة (١) میں صریحا موجود ہے کہ ام المؤمنین حضرت ام سلمة (رض) کی وفات جبکہ وہ چوراسی سال کی تھیں یزیدبن معاویہ کی حکومت میں ہوئی تھی اور وہ جنت البقیع میں دفن ہوئیں۔
(ج٣ ص٤١١ طبع دارالمعرفة بیروت)
اہل سنت کے معتبر مؤرخ علامہ ذہبی اپنی کتاب سیر اعلام النبلاء (ج٢ ص٢١٠ ) میں لکھتے ہیں کہ بعض نے گمان کیا ہے کہ حضرت ام سلمہ (رض) کی وفات ٥٩ (انسٹھ) میں ہوئی ہے یہ بھی (انکا) وہم ہے ظاہریہ ہے کہ ان کی وفات ٦١ (اکسٹھ) میں ہوئی ہے والظاہروفاتھا فی سنة احدی و ستین رضی اللہ عنہا
نیز علامہ ذھبی نے اپنی کتاب تاریخ الاسلام میں ٦١ (اکسٹھ) کے حوادث میں ام المؤمنین حضرت ام سلمة (رض) کی وفات کا ذکر کیا ہے۔
نیز علامہ ذھبی اپنی کتاب سیر أعلام النبلاء (ج٢ ص٢٠٢) میں لکھتے ہیں کہ امہات المؤمنین میں سے سب سے آخر میں حضرت ام سلمہ (رض) نے وفات پائی حتی کہ جب حسین شہید کی شہادت کی خبر سنی تو وہ بے ہوش ہوگئیں اور ان پر بہت محزون ہوئیں ان کی شہادت کے بعد تھوڑا عرصہ زندہ رہیں اورپھر انتقال کر گئیں۔
وکانت آخر من مات من امھات المؤمنین عمّرت حتی بلغھا فقتل الحسین (ع) الشھید فو جمت لذلک و غش علیھا و حزنت علیہ کثیرا لم تلبث بعدہ الّا یسیراً۔
نیز اہل سنت کی معتبر کتاب مجمع الزوائد ج٩ ص٢٤٦ پر تصریح موجود ہے کہ جناب أم سلمہ (رض) نےیزید ابن معاویہ کے زمانہ میں ٦٢ باسٹھ میں انتقال کیا ہے۔ اور اس کو محدث طبرانی نےروایت کیا ہےاور اس روایت کے رجال ثقہ ہیں۔
مزیدتائید: حضرت ام سلمہ(رض) سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایاکہ میں نے حسین بن علی کی شہادت پر جنوں کا نوحہ سنا ہے اس کو طبرانی نےروایت کیا ہےاور اس روایت کے رجال صحیح ہیں ( مجمع الزوائد ج٩ ١٩٩)
اگر وہ شہادت امام حسین علیہ السلام سے پہلے فوت ہوگئی تھیں تو پھر انہوں نے امام مظلوم کی شہادت پرجنّات کا نوحہ کیسے سن لیا؟ حالانکہ جنّات کا نوحہ سننے والی روایت بھی صحیح ہے۔
خلاصہ: یہ کہ حضرت ام سلمہ کی وفات بقول ذھبی حکومت یزیدمیں ٦١ ہجری میں یا صحیح قول کے مطابق ٦٢ باسٹھ ہجری میں ہوئی ہے کما فی مجمع الزوائد بہر حال ان کی وفات امام حسین علیہ السلام کی شھادت کے بعد ہوئی ہے۔
پس مترجم مشکوة کا یہ دعوی کرنا کہ ان کی وفات شھادت حسین علیہ السلام سے دو سال قبل ہونے پر سب مورخین کا اتفاق ہے، یہ دعوی جہالت پر مبنی ، اورغلط ہے۔
نوٹ :نمبر١
ابن عباس سے بھی اسی مضمون کی روایت کتب میں پائی جاتی ہے (٢) تاریخ الخلفاء ص ٢٣٦ طبع مصر (٣) کفایة الطالب مناقب علی ابن ابی طالب ص ٤٣٨ ؛ الصواعق المحرقہ ص١٩٣.
جس گھر میں ترمذی شریف ہو گویا اس گھر میں نبی موجود ہیں .
ملاحظہ ہو اہل سنت کی معتبر کتاب اسماء الرجال مشکوٰة شریف ص١٨٤ :جس گھر میں یہ کتاب (ترمذی) موجود ہو پس یہ سمجھنا چاہئے کہ اس کے یہاں خود نبی موجود ہیں جو گفتگو فرمارہے ہیں ۔
نوٹ:نمبر٢
مذکورہ روایت سے ام سلمہ زوجہ رسول خدا ۖ کا مصیبت امام حسین کویاد کر کےرونا ثابت کرتاہے کہ مصیبت امام حسین میں رسول ۖ خدانے اپنے سر مبارک اورریش اقدس میں مٹی ڈالی ہے تو پھر مصیبت امام حسین میں رونا اورسر پر خاک ڈالنا بدعت نہیں ہے بلکہ عین سنت رسولۖ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱)ایک شبہ کا جواب