تیسرا باب

 

نبوت


 

علم کلام میں نبوت کے بارے میں دو مرحلوں میں بحث کی جاتی ہے: ۱۔نبوت عامہ،  ۲۔ نبوت خاصہ۔

نبوت عامہ سے مراد یہ ہے کہ خداوند متعال نے انسانوں کی ہدایت کے لیے پیغمبروں کو بھیجا تاکہ وہ انہیں غلط عقائد و افکار اور برے اعمال سے روکیں اور انہیں توحید کی طرف دعوت دیں تاکہ وہ دنیا وآخرت کی سعات پرفائز ہوسکیں۔ نبوت عامہ میں لزوم بعثت انبیاء، شناخت انبیاء اور فوائد بعثت کے بارے میں بحث کی جاتی ہے۔ اور نبوت خاصہ میں خود حضور ﷺ کے مربوط اثبات نبوت معجزہ،ختم نبوت اور ان کی آسمانی کتاب قرآن کے بارے میں بحث کی جاتی ہے۔

نبوت عامہ

نبی کا لغوی معنی:اہل لغت نے نبی کے دو معنی بیان کیے ہیں:

۱۔ بلند مرتبہ و والا مقام، جس کا ریشہ نباوۃ ہے۔

۲۔ خدا کی طرف سے خبر دینے والا، اس کا ریشہ نبأ ہے۔

لزوم بعثت انبیاء

انسان جب کائنات کی خلقت کے بارے میں سوچے تو یقین سے کہہ سکتا ہے کہ یہ دنیا بغیر کسی مقصد کے خلق نہیں ہوئی۔ خالق کائنات جو کہ حکیم (حکمت والا) ہے لہذا کوئی کام عبث اور بے ہودہ نہیں کرتا۔ خدا نے کائنات کو منظم طریقے سے خلق کیا ہے اور اس نظام کے بارے میں کئی طرح کے سوالات ہوسکتےہیں۔

  1. 1.خدا نے اس دنیا کو کیوں خلق کیا ہے، خلقت کا مقصد کیاہے؟
  2. 2.اپنی خلقت کے مقصد کے بارے میں کس طریقے سے پہچان ہوسکتی ہے سعادت اور کمال کا راستہ کیا ہے اور اس کو ہم کیسے طے کرسکتے ہیں۔
  3. 3.مرنے کے بعد کیاہوگا، آیا مرنے سے ہم بالکل ختم ہوجائیں گے یا کوئی اور زندگی بھی ہے اور وہ زندگی ، مرنے کے بعد کیسے ہوگی؟
  4. 4.آیا ہم دنیا میں حیوانوں کی طرح زندگی بسر کریں یا زندگی کے لیے آداب و احکام ہیں اور کیا سب احکام کے فلسفہ کو ہماری عقل سمجھ سکتی ہے یا نہیں۔

اس طرح کے سوالات کے جوابات کے لیے کوئی شخص خدا کی طرف سے مبعوث ہو جو کہ ہمیں فلسفہ آفرینش، کمال و سعادت کا راستہ بتائے۔اور ہمیں مرنے کے بعد والے حالات سے آگاہ کرے۔

انسان اپنی عقل سے زندگی کے دنیاوی مسائل کو تو سمجھ سکتا ہے لیکن کمال و سعادت اور موت کے بعد کے حالات کے بارے میں سمجھنے سے ناتوان ہے لہذا خداوند متعال نے لوگوں کی راہنمائی اور ان کو کمال واقعی تک پہنچانے کے لیے معصوم انبیاء کو بھیجا ہے۔

ازالہ شبھہ: تاریخ میں کچھ ایسے بھی گزرے ہیں جو انبیاء کی بعثت کے لزوم کے بارے میں منکر ہیں مانند براہمہ۔ وہ کہتے ہیں انسانی عقل ہی جامعہ بشری کی ہدایت کے لیے کافی ہے چونکہ انبیاء جو چیز انسانوں کی ہدایت کے لیے لائیں گے وہ دو حال سے خارج نہیں ہے یا عقل اس کے سمجھنے کی توانائی رکھتی ہے یا نہیں رکھتی۔ اگر رکھتی ہے تو انبیاء کی بعثت کا کیا فائدہ؟ اور اگرنہیں رکھتی تو ایسی چیز کو نہیں مانا جاسکتا جس کو عقل نہ سمجھتی ہو۔

متکلمین علماء نے اس شبھہ کا متین جواب دیاہے۔ کہ بعثت انبیاء خدا کی طرف سے لطف اور عنایت ہے جس میں طرح طرح کی مصلحتیں اور حکمتیں پائی جاتی ہیں جن کو عقل تنہائی نہیں سمجھ سکتی۔

درج ذیل بعض مصلحتوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:

  1. 1.وجود خدا اور صفات قیامت وغیرہ کے سمجھنے کے بارے میں عقل کی مدد کرنا۔

{ لِئَلا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ }([1]) تاکہ رسولوں کے آنے بعد انسانوں کی حجت خدا پر قائم نہ ہونے پائے۔

{ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ }([2]) تاکہ جو ہلاک ہو وہ دلیل کے ساتھ اور جو زندہ رہے وہ بھی دلیل کے ساتھ۔

{ قُلْ فَلِلَّهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ }([3]) کہہ دیجئے کہ اللہ کے پاس منزل تک پہنچانے والی دلیلیں ہیں۔

انبیاء کی بعثت اس لیے ہے کہ لوگوں پر اتمام حجت ہوجائے تاکہ قیامت کے دن کوئی عذر اور بہانہ نہ کرسکے کہ ہم تو ان معارف کو سمجھنے سے عاجز تھے۔ انبیاء نے معارف دینی کی پوری وضاحت کرکے لوگوں کے بہانہ کو ختم کردیا ہے۔

  1. 2.جن چیزوں کو عقل نہیں سمجھ سکتی تھی انبیاء نے، لوگوں کو ان کی پہچان کروادی ہے۔ مثلاً حرام و حلال کا جاننا، نجاست و طہارت کا جاننا واجب و حرام کی معرفت۔

ہماری عقل (بغیر رہنمائی کے) کہاں جان سکتی تھی کہ یہ چیز حلال ہے اور یہ چیز حرام ہے، حلال و حرام کے مصالح اور مفاسد کو عقل نہیں جانتی۔ بعثت انبیاء سے حلال و حرام کا علم ہوا ہے۔

  1. 3.انسانوں کو علمی، اخلاقی، اجتماعی و سیاست دینی اور کمال انسانی کے مراحل تک پہنچانا۔

{ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ }([4]) اور ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے۔

{ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولا }([5]) اور ہم اس وقت تک عذاب کرنے والے نہیں ہیں جب تک کوئی رسول نہ بھیج دیں۔

  1. 4.مطیع اور نیک لوگوں کو ثواب کی بشارت اور برے لوگوں کو عذاب کا وعدہ دیں لہذا بعثت کے لزوم میں کسی طرح کا شبھہ صحیح نہیں ہے چونکہ عقل بہت سی چیزوں کے حقائق کو درک نہیں کرسکتی۔ نیز عقل حبّ و بغض، ہوا و ہوس نفسانی، برے ماحول کی وجہ سے حقائق سمجھنے میں خطا کر جاتی ہے۔ (لہذا خدا کی طرف سے معصوم راہنما کی ضرورت ہے جو خطا نہ کرتا ہو۔)

تذکر: اہل سنت کے دو گروہ اشاعرہ اور معتزلہ کے درمیان لزوم بعثت انبیاء پر اختلاف ہے۔ معتزلہ کا نظریہ یہ ہے کہ بعثت، خدا پر واجب ہے لیکن اشاعرہ کہتےہیں کہ بعثت، جائز ہے۔ یعنی اگر خدا انبیاء کو نہ بھی بھیجے تو خدا نے قبیح کام نہیں کیا۔

شیعہ کا نظریہ یہ ہے کہ خداوند متعال کی حکمت کا تقاضا یہ ہے لوگوں کی ہدایت کے لیے پیغمبروں کو بھیجے چونکہ خدا پر لطف واجب ہے اور لطف کا مقتضی، بعثت کا وجوب ہے ورنہ نقض غرض لازم آئے گی اور نقض غرض خدا پر محال ہے چونکہ نقض غرض کا لازمہ عاجز ہونا ہے نیز لازم آتا ہے کہ انسان کی خلقت بے فائدہ اور عبث ہو اور یہ چیز خدا کے عدل کے ساتھ منافات رکھتی ہے۔

بعثت انبیاء کے مقاصد اور فوائد

۱۔ لوگوں کو توحید کی طرف دعوت دینا اور انہیں طاغوت سے اجتناب کی تلقین کرنا۔

{ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولاً أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ}([6])۔

اور یقیناً ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہے کہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو۔

۲۔ تزکیہ نفوس اور تعلیم معارف

{ هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الأمِّيِّينَ رَسُولاً مِنْهُمْ يَتْلُوۡا عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ }([7])۔

اور اس خدا نے اہل مکہ میں سے ایک رسول بھیجا ہے جو انہیں میں سے تھا کہ ان کے سامنے آیات کی تلاوت کرے ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائے اور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دے۔

۳۔ عدل و انصاف کا نافذ کرنا

{ لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ }([8])۔

بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں۔

۴۔ لوگوں کے اختلافات کے فیصلے کرنا

{ كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ وَأَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ }([9])۔

(فطری اعتبار سے) سب انسان ایک قوم تھے پھر اللہ نے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے انبیاء بھیجے اور ان کے ساتھ برحق کتاب نازل کی تاکہ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کریں۔

۵۔ و مقاصد دیگر مانند اتمام حجت بر بندگان

خلاصہ یہ کہ انبیاء کی بعثت کا مقصد ، انسانوں کی ہدایت اور انہیں دنیا و آخرت کی سعادت پر فائز کرنے کےلیے راہنمائی کرنا، اور انہیں رذائل اخلاق سے بچنے کی تلقین کرنا تھا۔

تعداد انبیاء

ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بشر کی ہدایت کے لیے خدا کی طرف سے آئے ہیں جن میں پانچ اولو العزم ([10])ہیں۔

  1. 1.حضرت نوح علیہ السلام
  2. 2.حضرت ابراہیم علیہ السلام

3. حضرت موسیٰ علیہ السلام

  1. 4.حضرت عیسیٰ علیہ السلام
  2. 5.حضرت محمد ﷺ

اور سب انبیاء سے افضل ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ ہیں بلکہ پوری مخلوق خدا میں سب سے افضل و اشرف ہیں اور انہی کی خاطر اللہ نے کائنات کو خلق کیا ہے۔

انبیاء کی پہچان کے طریقے

  1. 1.معجزہ: معجزہ خارج العادت کام کے انجام دینے کو کہتے ہیں۔ جس کو دوسرے لوگ انجام دینے پر ناتوان اور عاجز ہوں، معجزہ کو دعوی نبوت کے ساتھ مربوط ہونا چاہیے تاکہ وہ دعوی کی دلیل بن سکے۔
  2. 2.پیامبر سابق کی بشارت دینا، جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے بعد ہمارے نبی ﷺ کے آنے کی بشارت دی ہے۔
  3. 3.قرائن اور قطعی شواہد، یہی وجہ ہے کہ ان قرائن اور شواہد کو دیکھ کر کئی ایک راہبوں نے حضور ﷺ کی زیارت کرتے ہی ان کی نبوت کا اقرار کرلیا۔

معجزہ اور جادو میں فرق

معجزہ اور جادو میں کئی ایک فرق ہیں،جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:

  1. 1.جادوگروں اور ریاضت کشوں کا فعل تمرین ہوتا ہے پہلے وہ اپنے استاد سے سیکھتے ہیں اور پھر وہ فعل انجام دیتے ہیں، برخلاف انبیاء و اوصیاء کہ ان کو تمرین کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ ہی کسی استاد کی ضرورت ہوتی ہے۔
  2. 2.جادوگروں اور ریاضت کشوں کے فعل کے لیے خاص شرائط زمان، مکان، آلات وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے لیکن انبیاء و اوصیاء باذن اللہ جب چاہئیں معجزہ دکھا سکتے ہیں۔
  3. 3.جادوگروں اور ریاضت کشوں کے فعل غالباٍ مادیات کے لیے ہوتے ہیں (اموال اکٹھا کرنا یا شہرت وغیرہ کے لیے) لیکن انبیاء کا مقصد انسانوں کو دنیا و آخرت کی سعادت کی طرف دعوت دینا ہے۔
  4. 4.جادوگروں اور ریاضت کشوں کے عمل کو توڑا جاسکتا ہے یعنی دوسرے لوگ جادو کرسکتے ہیں۔ برخلاف معجزات انبیاء، کہ دوسرے لوگ معجزہ نہیں دکھا سکتے۔
  5. 5.و دیگر فرو ق ۔

شرائط نبوت

جو شخص نبوت کا دعوی کرے اس میں شرائط اور صفات نبوت موجود ہونی چاہئیں ان میں عمدہ درج ذیل ہیں:

  1. 1.عصمت مطلقہ رکھتا ہو یعنی اول زندگی سے لے کر آخر عمر تک ہر طرح کے گناہ سے پا ک ہو، شک ، سہو و نسیان و خطاؤں سے مصون ہو۔
  2. 2.سب صفات حمیدہ اور اخلاق پسندیدہ رکھتا ہو اور ہر طرح کی بری صفات اور زشت اخلاق سے مبرّا ہو۔ سب کمالات نفسانی میں پوری امت کے سب افراد سے افضل ہو۔
  3. 3.دینی امور میں، امت جن چیزوں کی احتیاج رکھتی ہے ان سب کو جاننے والا ہو اور ان کی زبان کو بھی جانتا ہو۔ (یعنی نبی کے لیے مترجم کی ضرورت نہیں ہوتی)
  4. 4.نبی کے تمام علوم اور کمالات،موہبتی ہوں یعنی عادی طریقے سے ان کو حاصل اور کسب نہ کیا ہو۔ (نبی کو کسی دنیاوی استاد سے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہوتی)
  5. 5.اس کا نسب پاک اور حسب شریف ہو بدنی حوالے سے صحیح و سالم اور ہر طرح کی نفرت انگیز بیماری سے منزّہ ہو۔([11])
  6. 6.معجزہ رکھتا ہو یا دلیل قطعی رکھتا ہو مثلاً جس کی نبوت ثابت ہو وہ اس کی نبوت کی خبر دے یا معصوم جس کی عصمت ثابت ہو وہ اس کی نبوت پر خبر دے۔

موانع نبوت

  1. 1.شرائط اور صفات نبوت جن کا ذکر اوپر ہوچکا ہے وہ اس میں مفقود ہوں۔
  2. 2.اس کا دعوی، حکم عقل کے خلاف ہو جیسے کہے کہ خدا مجھ میں حلول کرگیا ہے یا خدائی کا دعوی کردے۔
  3. 3.اس کا دعویٰ متناقص ہو جیسے کبھی پیغمبری کا دعویٰ کرے اور کبھی مہدویت کا دعوی کردے۔
  4. 4.اس کے احتجاجات اوراحکام میں (عنوان نسخ کے بغیر) تناقض پایا جاتا ہو۔
  5. 5.جس کی نبوت ثابت ہو وہ اس کے جھوٹے ہونے پر تصریح کردے یا ایسی علامات ذکر کرے جس سے اس کا جھوٹا ہونا ثابت ہوتا ہو۔
  6. 6.اس کے احکام حکمت، مصلحت اورحکم عقل کے خلاف ہوں۔

عصمت

عصمت انبیاء: شیعہ کا عقیدہ یہ ہے کہ انبیاء پوری زندگی میں گناہوں اور خطاؤں سے پاک ہوتے ہیں خواہ وہ گناہ صغیرہ ہوں یا کبیرہ ہوں۔

دلیل اول:

اگر انبیاء معصوم نہ ہوں تو ان کی باتوں پر اعتماد اور وثوق نہیں رہتا اور نتیجتاً نبوت کامقصد پورا نہیں رہتا۔ چونکہ عصمت نہ ہونے کی صورت میں اطمینان نفس حاصل نہ ہوگا۔ لہذا انبیاء کا معصوم ہونا ضروری ہے۔ انبیاء ہر قسم کی خطا ، سہو و نسیان سے منزہ ہیں۔

دلیل دوم:

بعثت سے غرض کاحاصل ہونا، پیغمبر کے امر کی اطاعت اور نہی میں ہے اور دوسری طرف خطا کار اور گناہ گار کی اطاعت جائز نہیں ہے پس اس بناء پر نبی اگر معصوم نہ ہو تو یہ موجب نقض غرض ہے اور نتیجتاً بعثت کا بطلان ہے۔ پس نبی کا معصوم ہونا ضروری ہے۔

تذکر: عصمت انبیاء کے بارے میں ہمارے علماء نے بہت سے دلائل اور براہین پیش کئے ہیں جن کو کتب مفصلہ میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ کفایۃ الموحدین، کشف المراد وغیرہ۔

سوال: ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ سوال آئے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان ہر گناہ سے بچ جائے بلکہ گناہ کرنے کی فکر بھی نہ کرے گناہ کے بارے میں سوچے تک نہیں۔

جواب: جب انسان کو کسی چیز کے بارے میں یقین ہو کہ یہ چیز مضر اور معیوب ہے اور اس کے کرنے پر نابودی اور دردناک سزا ہے تو کوئی عاقل اس کا ارتکاب نہیں کرے گا۔ مثلاً کوئی عقلمند انسان آگ کےگڑھے میں عمداً نہیں کودتا۔ یا عمداً (اختیاراً) زہر نوشی نہیں کرتا۔ اگر کوئی کرتا ہے تو وہ ایک طرح کی بیماری میں مبتلا ہے ۔ بعض حالات میں عام انسان بھی بعض گناہوں کی نسبت سوچ بھی نہیں سکتے مثلاً کوئی مسلمان شخص العیاذ باللہ اپنی ماں بہن کے ساتھ برائی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ چونکہ اس عمل کی زشتی کا یقین رکھتا ہے یا مثلاً کوئی شخص پاخانہ کھانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔

انبیاء اور اوصیاء چونکہ ایمان کے اعلیٰ درجے پر فائز ہوتے ہیں اور وہ گناہ کی گندگی کی زشتی کا مطلقاً یقین رکھتے ہیں لہذا گناہ نہیں کرتے بلکہ سوچ بھی نہیں سکتے۔

یہاں پر اُن بعض آیات کہ جن میں پیغمبروں کی طرف ظلم و عصیان کی نسبت دی گئی ہے، کے جواب کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔

وہ یہ کہ انبیاء و اوصیاء معصوم ہوتے ہیں ہر طرح کے گناہ اور کار حرام سے پاک ہوتے ہیں لیکن کسی کام کا ترک کر دینا بہتر ہو اور اس کا ارتکاب حرام نہ ہو تو یہ گذشتہ انبیاء کی نسبت ممکن اور جائز ہے اور یہ چیز عصمت کے ساتھ کوئی منافات نہیں رکھتی۔

اللہ پاک نے حضرت آدم اور حوا کو جنت میں رہنے کا حکم دیا اور انہیں مخصوس شجرہ([12]) سے روک دیا۔ فرمایا:{ وَلا تَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ}([13]) اس درخت کے قریب نہ جانا کہ ظلم کرنے والوں میں شمار ہو جاؤں گے۔

اس آیت میں نہی سے نہی تحریمی مراد نہیں ہے کہ جس کی مخالفت حرام ہوتی ہے۔ بلکہ اس آیت میں نہی ارشادی مراد ہے جس طرح طبیب، مریض کو مثلاً زکام کی حالت میں انار کھانے سے منع کردے اب اگر مریض اس کو تناول کرے تو کوئی حرام کام نہیں کیا لیکن اس نہی ارشادی کی مخالفت کا ضرر اس کی طرف متوجہ ہوجائے گا مثلاً اگر اس کا زکام وغیرہ ایک ہفتہ میں ٹھیک ہونا تھا تو اب مثلاً وہ زکام تیز ہوجانے کی وجہ سے دیر کے ساتھ ٹھیک ہوگا۔

اسی طرح حضرت آدم علیہ السلام کو جو درخت کے قریب نہ جانے کی جو نہی کی گئی وہ ارشادی تھی۔ اس نہی کی مخالفت حرام نہیں تھی لیکن اس کا ضرر یہ تھا کہ اگر اس درخت کے قریب گئے تو اس جنت سے نکلنا پڑے گا۔ تو جنت کی نعمات سے محروم ہونا یہ ایک طرح کا اپنے اوپر ظلم کرنا ہے اور ظلم کا لغت میں یہ معنی ہے کہ وضع الشی فی غیر محلہ؛کسی چیز کو اس کے غیر محل میں قرار دینا، اور یہ معنی فعل مباح کے ساتھ بھی جمع ہوسکتا ہے۔

حضرت آدم و حوا علیہما السلام نے اس نہی ارشادی کی مخالفت کرکے جنت سے نکل کر اپنے آپ کو زحمت و مشقت میں ڈال دیا۔

لہذا کہا:{ رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا }([14]) پروردگارا! ہم نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے۔

اور نہی کے ارشادی ہونے کی دلیل قرآن کی یہ آیت ہے:{ فَقُلْنَا يَا آدَمُ إِنَّ هَذَا عَدُوٌّ لَكَ وَلِزَوْجِكَ فَلا يُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقَى }([15]) تو ہم نے کہا کہ آدم یہ تمہارا اور تمہاری زوجہ کا دشمن ہے کہیں تمہیں جنت سے نکال نہ دے کہ تم زحمت میں پڑ جاؤ۔

تو معلوم ہوا نہی ارشادی کی مخالفت کا اثر، جنت سے نکلنا اور زحمت و مشقت میں پڑ جانا تھا۔ اور ربنا ظلمنا انفسنا سے مراد، ظلم اصطلاحی نہیں ہے جو کہ گناہ ہوتا ہے۔

ظلم کا ایک معنی، نقصان اور حظ و بہرہ کو کم کرنا بھی منقول ہوا ہے حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے بہرہ فائدہ کو اپنی نعمات سے کم کر دیا اس لیے لفظ ظلم کا اطلاق ان پرہوا ہے۔

چونکہ انہوں نے نہی ارشادی کی مخالفت کی ہے اسی وجہ سے مجازاً عصیان کا اطلاق بھی ہوا ہے۔

بعبارت دیگر، حضرت آدم علیہ السلام نے ترک اولیٰ کیا تھانہ کہ گناہ۔

یہی وجہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کا چونکہ مرتبہ بلند تھا ان سے ترک اولی کی بھی توقع نہیں تھی، ترک اولی پر انہوں نے توبہ کی اور خدا سے طلب مغفرت کی اور یہ اس قبیل سے ہے کہ حسنات الابرار سیئات المقربین۔

بطور خلاصہ یہ کہ جن آیات میں انبیاء کی طرف اس طرح کے ظلم و عصیان، ذنب کی نسبت دی گئی ہے اس سے مراد گناہ نہیں ہے۔ بلکہ ترک اولی مراد ہے اور سورہ غافر کی آیت ۵۵ میں { وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ}سے مراد امت کے گناہ ہیں۔ ان آیات کی علماء نے تاویلات بیان فرمائی ہیں۔ قارئین محترم سید مرتضی عَلَمَ الہدی کی کتاب تنزیہ الانبیاء کی طرف رجوع فرماسکتے ہیں۔

ائمہ طاہرین علیہم السلام کی دعاؤں میں اعتراف گناہ، یا طلب استغفار یا ذکر توبہ یا خوف نار وغیرہ کا جو ذکر آیا ہے اس کی وجہ امت پیغمبر ﷺ کو تعلیم دینا ہے کہ پروردگار کے دربار میں کس طریقے سے اپنی تقصیرات کا اعتراف کرنا چاہیے اور کس طرح استغفار کرنا چاہیے۔

و ثانیاًٍ معصومین علیہم السلام کا استغفار اس جہت سے بھی ہے چونکہ وہ ہمیشہ ذکر خدا میں مستغرق رہتے تھے لیکن بعض دنیاوی حلال امور کھانے پینے وغیرہ کی وجہ سے ذکر اللہ کرنے میں جو انقطاع آجاتا تھا وہ اس کو بھی گناہ محسوب کرتے تھے اور استغفار فرماتے تھے۔ اور یہ اس قبیل سے ہے کہ کہا جاتا ہے کہ حسنات الابرار سیئات المقربین۔ نیک لوگوں کی نیکیاں بھی مقربین کے نزدیک گناہ سمجھی جاتی ہیں۔

یہ ضروری نہیں جو شخص گناہ کرے وہی استغفار کرے بلکہ استغفار کرنا خود ایک عبادت ہے بغیر گناہ کے استغفار کیاجاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے رسول خدا ﷺ باوجود معصوم ہونے کے ہر روز ستر مرتبہ استغفار کرتے تھے۔ کما فی الکافی۔

نبوت خاصہ، و بعثت حضرت محمد ﷺ

حضرت محمد ﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں یہی وجہ ہے کہ خاتم النبین کے ساتھ ملقب ہیں۔

نسب مبارک: محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصّی بن کلاب بن مرّہ بن کعب بن لویّ بن غالب بن فہر بن مالک بن النضر (وہوقریش) بن کنانۃ بن خزیمۃ بن مدرکۃ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان۔

حضور ﷺ کا ارشاد ہے: اذا بلغ نسبی عدنان فامسکوا، جب میرا نسب عدنان تک پہنچ جائے پھر رک جاؤ۔

آنجناب کی والدہ کا نام آمنہ بنت وہب بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرّۃ بن کعب ہے۔ آنجناب کی ولادت ۵۷۰ میلادی میں مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ اور تریسٹھ (۶۳) سال زندگی کی اور بروز سوموار ۲۸ صفر سن ۱۱ ہجری کو اس دنیا سے دار آخرت کی طرف منتقل ہوئے۔

آنجناب کا نام مبارک محمد اور احمد ہے ، کنیت ابو القاسم اور آپ کے بہت سے القابات ہیں جن میں مشہور: مصطفی، رسول، نبی، مزمل،مدثر، شاہد، مبشر، نذیر، ماحی، عاقب، حاشر اور خاتم النبیین ہیں۔

آنجناب کی حضرت خدیجہ سے اولاد حضرت قاسم، حضرت عبد اللہ جن کو طاہر اور طیب بھی کہا جاتا ہے۔ اور ایک بیٹی حضرت فاطمہ علیہا السلام ہیں۔

بناء بر تحقیق حضرت زینب، ام کلثوم اور رقیہ یہ حضورؐ کی ربیبہ (پالتو) بیٹیاں تھیں نہ کہ صلبی بیٹیاں۔ اور عربوں کا یہ رواج تھا کہ جس یتیم بچے یا بچی کی پرورش کرتے تھے ان کو ان کی اولاد ہی سمجھاجاتا تھا۔ زینب، ام کلثوم اور رقیہ کی پرورش حضور ﷺ کے گھر ہوئی تھی لہذا لوگوں نے مشہور کردیا یہ بھی حضور کی بیٹیاں ہیں۔

حضرت محمد مصطفی ﷺ چالیس سال کی عمر میں اسلام کی تبلیغ پر مبعوث ہوئے ۔ آنجنابؐ کی نبوت و رسالت پر دلائل:

دلیل اول: آنحضرت ﷺ کی رسالت پر حضرت عیسیٰ پیغمبر نے اپنے بعد آنے بشارت دی ہے۔

{ وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ}([16]) اور اس وقت کو یاد کرو جب عیسی بن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں اپنے پہلے کی کتاب توریت کی تصدیق کرنے والا اور اپنے بعد کے لیے ایک رسول کی بشارت دینے والا ہوں جس کا نام احمد ہے۔

انجیل حقیقی میں حضور اکرم ﷺ کی آمد کے بارے میں مکمل صراحت موجود تھی اور آپ کا اسم شریف موجود تھا پھر بعد میں گمراہوں نے انجیل کو بدل ڈالا۔

حالانکہ قرآن مجید نے آنحضرت ﷺ کے نام مبارک کا تورات اورانجیل میں موجود ہونے کی صراحت فرمائی ہے۔

{الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الأمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالإنْجِيلِ }([17])

جو لوگ کہ رسول نبی امّی کا اتباع کرتے ہیں جس کا ذکر اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔

{ الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ وَإِنَّ فَرِيقًا مِنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ}([18])

جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ رسول کو اپنی اولاد کی طرح پہچانتے ہیں بس کا ان ایک گروہ ہے جو حق کو دیدہ و دانستہ چھپا رہا ہے۔

دلیل دوم: حضرت محمد مصطفی ﷺ کی نبوت و رسالت پر دوسرا شاہد ان کے معجزات ہیں جن میں سب سے اہم معجزہ جو کہ اب بھی موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا وہ قرآن ہے کیونکہ قرآن کا چیلنج صدیوں گزرنے کے بعد اب بھی موجود ہے اور قیامت تک رہے گا۔

{ قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الإنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا}([19])

اگر انسان اور جنات سب اس بات پر متفق ہوجائیں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں تو بھی نہیں لاسکتے چاہے سب ایک دوسرے کے مددگار اور پشت پناہ کیوں نہ ہوجائیں۔

قرآن نے پھر چیلنج کیا کہ اگر پوری کتاب مانند قرآن کریم نہیں لاسکتے تو قرآن کے دس سوروں کی مانندلے آئیں۔

{ قُلْ فَأْتُوا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِثْلِهِ مُفْتَرَيَاتٍ}([20])

کہہ دیجئے کہ اس کے جیسے دس سورہ گڑھ کر تم بھی لے آؤ۔

پھر چیلنج کیا اگر قرآن کے دس سوروں کی طرح نہیں لاسکتے تو کم سے کم قرآن کے ایک سورہ جیسا لاؤ۔

{ فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ}([21])

اس جیسا ایک ہی سورہ لے آؤ۔

قرآن نے عرب کے بڑے بڑے ادباء، شعراء، فصحاء اور ماہر استادوں کو مجبور کردیا کہ وہ اعتراف کریں کہ یہ کلام یعنی قرآن، مافوق بشر ہے۔ جیسا کہ عتبہ بن ربیعہ اور طفیل بن عمرو، اور قریش کے مشہور ادیب ولید بن مغیرہ نے بے بس ہوکر قرآن کے ادبی اعجاز کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے جب مغیرہ نے سورہ حم سجدہ کی چند آیات کو پیامبر اسلام ﷺ سے سنا تو سنتے ہی اس کے دل میں ایک خاص ہیجان پیدا ہوا اور بے اختیار اٹھ کر دشمنان اسلام کے پاس آیا اور کہا خدا کی قسم! ابھی ابھی میں نے محمد ﷺ سے ایسا کلام سنا ہے جو نہ انسانوں کا کلام لگتا ہے اور نہ جنوں کا یہ ایک ایسا کلام ہے جس میں ایک خاص مٹھاس اور زیبائی پائی جاتی ہے اس کلام کی شاخیں پربار اور جڑیں بابرکت ہیں یہ ایک عالی کلام ہے کہ اس سے بالاتر اور کوئی کلام نہیں ہوسکتا (یعنی اس قرآن کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا)

مخفی نہ رہے کہ حضور ﷺ سے کئی ایک معجزات صادر ہوئے ،ابن شہر آشوب کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کے چار ہزار چار سو چالیس (۴۴۴۰) معجزے تھے جن میں تین ہزار کا ذکر ہوا ہے۔

حضور ﷺ کے معجزات میں سے شق القمر (چاند کا دو ٹکڑے ہوکر نیچے آنا) مردوں کا زندہ کرنا، پتھروں اور درختوں کا حضور ﷺ کو سلام کرنا، آپ کےلعاب دہن مبارک سے کنوئین کے کڑوے پانی کا میٹھا ہوجانا، آپ کے انگشت مبارک سے پانی کا جاری ہوجانا، جس سے فوج اور ان کی سواریوں کا سیراب ہونا، غیبی اخبار دینا، و ۔۔۔ ہیں۔

دلیل سوم:حضور ﷺ کی نبوت پر دیگر قرائن و قطعی شواہد : حضور کی بعثت سے قبل زندگی میں ، مکہ میں صادق اور امین معروف ہونا، حجر اسود کے نصب پر قبائل کے اختلاف کو دور کرنا اور ان کا اعتراف کرنا کہ آپ امین اور پاک دامن ہیں۔

عرب کے غلط ماحول کا آپ پر کچھ اثر نہ کرنا، بلکہ آنجناب کا ان کو غلط کاموں سے روکنا، آپ ؐ کا بلند اخلاق پر فائز ہونا، آپ کے سرمبارک پر بادل کا سایہ کرنا، آپ کے شانہ مبارک پر مہر نبوت کا ہونا وغیرہ آپ کی نبوت پر قطعی شواہد اور ثبوت ہیں۔

عدم تحریف قرآن

ہم شیعیان علی علیہ السلام کا عقیدہ یہ ہے کہ موجودہ قرآن وہی ہے جو ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ پر نازل ہوا تھا اس میں نہ کمی واقع ہوئی ہے اور نہ ہی زیادتی۔ قرآن کے ایک سو چودہ سورہ ہیں قرآن سورہ الحمد سے شروع اور والناس پر ختم ہے۔ ہمارے مشہور محققین علماء نے قرآن کے عدم تحریف پر تصریح کی ہے۔

جو لوگ شیعہ کی طرف تحریف کی نسبت دیتے ہیں وہ تعصب اور جہالت کی وجہ سے ہے۔

شیعہ بزرگ علماء کی تصریحات:

  1. 1.شیخ صدوق، متوفی ۳۸۱، در اعتقادات امامیہ؛
  2. 2.شیخ مفید ، متوفی ۴۱۳، در اوائل مقالات؛
  3. 3.سید مرتضی، متوفی ۴۳۶،رسالہ در جواب مسائل طرابلیسات؛
  4. 4.شیخ طوسی، متوفی ۴۶۰،در تفسیر تبیان، ج۱، ص ۳؛
  5. 5.طبرسی، متوفی ۵۴۸، در مقدمہ تفسیر مجمع البیان؛
  6. 6.علامہ حلی، متوفی ۷۲۶،در اجوبۃ المھناویۃ، ص ۱۲۱؛
  7. 7.محقق اردبیلی، متوفی ۹۹۳، در مجمع الفائدۃ؛
  8. 8.شیخ جعفر کاشف الغطاء، متوفی ۱۲۲۸، در کشف الغطاء؛
  9. 9.رہبر انقلاب آیت اللہ خمینی کا نظریہ، در تہذیب الاصول بتقریر آقای سبحانی؛
  10. 10.آیت اللہ سید الخوئی، در البیان و غیرہم نے تصریح فرمائی ہے کہ قرآن میں کمی یا زیادتی واقع نہیں ہوئی۔ ہذا اوّلاً

ثانیاً:تحریف سے مربوط اکثر روایات ضعیف السند ہیں ۔ تحریف سے مربوط کئی ایک روایات احمد بن محمد بن سیاری سے منقول ہیں جو کہ ضعیف اور فاسد المذہب تھا۔

و ثالثاً:تحریف سے مربوط روایات تفسیر، قراءۃ، وغیرہ سے مربوط ہیں مثلاً روایت میں مصداق پر آیت کے مفاد کلی کو تطبیق کیاگیا ہے بعض نے گمان کیا کہ مذکورہ تفسیر اور تطبیق خود قرآن کا جزء تھا اور اس سے حذف ہوگیا، جس طرح آیت تبلیغ میں امیر المومنین علیہ السلام کے نام مبارک کا ہونا جس کو اہل سنت کے مفسرین شوکانی اور سیوطی وغیرہ نے بھی ذکر کیا ہے([22])۔ یہ تفسیری اور مصداقی پہلو سے مربوط تھا نہ کہ آیت کا حصہ تھا۔

مخفی نہ رہے کہ اہل سنت کی کتب میں بھی تحریف سے مربوط کئی ایک روایات پائی جاتی ہیں لیکن فریقین کے جمہور علماء نے تصریح کی ہے کہ قرآن میں تحریف واقع نہیں ہوئی، نہ کمی ہوئی ہے اور نہ زیادتی ۔ چنانچہ حق بھی یہی ہے۔ رب العزت ارشاد فرماتا ہے:

{ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ}([23]) ہم نے ہی قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم اس کے محافظ ہیں۔

{ وَإِنَّهُ لَكِتَابٌ عَزِيزٌ ۔ لا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلا مِنْ خَلْفِهِ تَنْزِيلٌ مِنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ}([24])

اور یہ ایک عالی مرتبہ کتاب ہے جن کے قریب سامنے یا پیچھے کسی طرف سے باطل آکر بھی نہیں سکتا کہ یہ خدائے حکیم و حمید کی نازل کی ہوئی کتاب ہے۔

فریقین میں سے جو چند لوگ تحریف کے قائل ہوئے ہیں ان کا قول اکثریت کے نزدیک مردود ہے۔ اور فصل الخطاب نامی کتاب ضعیف روایات اور تفسیری اور مصداقی روایات کا مجموعہ ہے اور اس کتاب کو شیعہ علماء قبول نہیں کرتے ۔

و رابعاً: نقضی جواب یہ کہ اہل سنت کی کتب میں بھی تحریف قرآن کے متعلق کئی ایک روایات اور اقوال صحابہ پائے جاتے ہیں جیسا کہ عمر بن خطاب کا عقیدہ یہ تھا کہ قرآن کے دس لاکھ ستائیس ہزار حرف تھے اور ابن عباس سے منقول ہے کہ قرآن میں تین لاکھ تیئیس ہزار چھ سو اکہتر (۳۲۳۶۷۱) حرف ہیں تو اس بناء پر ۷۰۳۳۲۹ حروف قرآن میں نہیں ہیں یعنی دو ثلث سے بھی زیادہ حروف قرآن سے حذف ہوگئے ہیں۔

اور عمر نے کہا جس شخص نے (ان حروف یعنی دس لاکھ ستائیس ہزار سے) ایک حرف صابر ہوکر ثواب کی امید سے پڑھا تو اس کے لیے جنت کی حوروں سے ایک حور ہوگی۔ اب آپ ہی انصاف سے بتائیں کہ لوگ کتنی حوروں سے محروم ہوگئے۔ نیز اہل سنت کا قرآن کامل کہا ں گیا۔ قرآن میں اتنی بڑی کمی کے بارے میں جو جواب آپ کا ہوگا وہی جواب ہمارا ہوگا نیز ان روایات کی نسبت جو موہم تحریف ہیں۔

نیز عبد اللہ ابن عمر کہتا ہے کوئی یہ نہ کہے میں نے پورا قرآن پالیا ہے قد ذہب منہ قرآن کثیر: بتحقیق قرآن کا زیادہ حصہ ضائع ہوگیا ہے بلکہ کہو کہ جو قرآن ظاہر ہوا ہے میں نے اس کو پالیا ہے۔ ([25])

نوٹ: مقام میں ذھب کا معنی نسخ نہیں ہے ، کما لا یخفی۔

عبد اللہ بن مسعود صحابی مصحف میں سورہ فاتحہ کو نہیں لکھتا تھا۔([26])

نیز عبد اللہ بن مسعود کہتا تھا کہ معوذتین، قرآن کا حصہ نہیں ہیں([27])۔ اور اپنے مصحف سے ان دونوں سورتوں کو مٹا دیتا تھا ([28])۔ اور ان دونوں سورتوں کو پڑھتا بھی نہیں تھا([29]) اور اپنے مصحف میں معوذتین کو لکھتا بھی نہیں تھا۔([30])

عبد اللہ ابن مسعود کا معوذتین سے انکار اہل سنت کی صحیح روایات میں نقل ہوا ہے۔کما فی فتح الباری۔([31])

نیز حذیفہ صحابی کا کہنا کہ جس کو تم سورہ توبہ کے نام سے یاد کرتے ہو وہ سورہ عذاب ہے کسی (صحابی) کو اس سورہ نے نہیں چھوڑا مگر اس میں کوئی عیب نکالا ہے اور جتنا یہ سورہ ہم پڑھتے تھے تم اس مقدار سے صرف ایک چوتھائی پڑھتے ہو، کما فی الدر المنثور۔

نیز عائشہ کہتی ہیں حضور اکرم ﷺ کے زمانہ میں سورہ احزاب کی دو سو آیات پڑھی جاتی تھیں پس جب عثمان نے قرآن لکھوائے تو اس میں موجودہ آیات سے زیادہ پر متمکن نہ ہوسکے یہ حدیث قرآن سے کچھ حصہ کے ضائع ہونے میں ظاہر ہے، کما فی روح المعانی وغیرہ۔

نیز عائشہ کا اعتراف ہے کہ آیت رجم اور رضاعت کبیر کو جو کہ میرے صحیفے میں تھی اس کو بکری کھا گئی، جیسا کہ سنن ابن ماجہ میں ہے۔

نوٹ: تحریف اور قرآن میں آیات کی کمی ہونے والی اہل سنت کی روایات کو تفسیر الاتقان،تفسیر در منثور وغیرہ میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے، اہل سنت کے ایک مصری عالم نے ایک کتاب الفرقان کو تالیف کیا ہے جس میں اس نے روایات تحریف وغیرہ کوجمع کیا ہے۔

جو جواب ان روایات اور اس کتاب الفرقان کے بارے میں تمہارا ہوگا وہی جواب فصل الخطاب کی روایات کے بارے میں ہمارا ہوگا۔

فصل الخطاب نامی کتاب شیعہ کے نزدیک معتبر نہیں ہے بلکہ اس کی ردّ میں بعض محققین علماء شیعہ نے کتب بھی تحریر کی ہیں ،جیسے: فقیہ محقق شیخ محمود ابن ابی القاسم طہرانی نے کشف الارتیاب فی عدم تحریف الکتاب کو تحریر فرمایا تھا۔

اور دیگر کئی ایک علماے نے اپنی تحریروں میں فصل الخطاب کو معتبر نہیں سمجھا۔ حق بھی یہی ہے کہ یہ کتاب شیعہ کے نزدیک کوئی وقعت نہیں رکھتی اور مؤلف نے اس کتاب کی تدوین میں خطاء کی ہے جیسا کہ وہ خود بھی اس کتاب کی نامگذاری میں پشیمان ہوئے تھے۔

خلاصہ یہ کہ موہم روایات تحریف، کا حلّی جواب یہ ہے کہ ان میں اکثر روایات ضعیف السند ہیں و ثانیاً یہ روایات تفسیر، بیان اور وضاحت اور مصادیق پر تطبیق کے بارے میں ہیں پس جن آیات میں اضافہ کا ذکر آیا ہے وہ کلمات تفسیری، بیانی اور توضیحی تھے نہ کہ تنزیلی تھے۔ شیعہ کا عقیدہ یہ ہے قرآن میں ہرگز کمی یا زیادتی واقع نہیں ہوئی جیسا کہ تفسیر صافی اور دیگر کتب میں تصریح موجود ہے۔

تحریف کے متعلق روایات سے اہل سنت کی کتب بھری پڑی ہیں۔ ان سب روایات و اقوال کی تفصیل کو ہم اس کتاب میں متعرض نہیں ہونا چاہتے اور بعض روایات کی طرف ہم نے اشارہ کردیا ہے اور اسی میں جواباً کفایت ہے۔

معراج

حضور ﷺ کو معراج ہوئی ہے جس کا ذکر قرآن مجید کی سورہ اسرائیل کی آیت نمبر ۱ اور معراج کی داستان کا ذکر سورہ زُخرف آیت ۴۵، سورہ نجم کی آیات ۵- ۱۸ میں آیا ہے ۔ اگرچہ لفظ معراج قرآن میں استعمال نہیں ہوا اس کی جگہ پر اسری آیا ہے۔ جس کو علماء نے معراج سے تعبیر کیا ہے۔ سورہ اسرائیل کی آیت سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ معراج مسجد حرام سے شروع اور بیت المقدس پر ختم ہے اور اسکے بعد والے واقعات کے بارے میں آیت خاموش ہے۔ حضورؐ کا مسجد الاقصی سے آسمان کی طرف عروج کا ذکر متواتر روایات میں آیا ہے اور اوپر والی آیات کی شان نزول میں بیان ہوا ہے۔ حضورؐ کو معراج بیداری میں جسم اور روح دونوں کے ساتھ ہوئی ہے اصل مسئلہ معراج ضروریات دین سے ہے اور اس کا منکر اسلام سے خارج ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: جو شخص چار چیزوں کا انکار کرتا ہے وہ ہم سے نہیں ہے۔ ۱۔ معراج،        ۲۔ قبر میں سوال و جواب،        

۳۔جنت و دوزخ کی خلقت       ۴۔ مسئلہ شفاعت۔([32])

معراج ہجرت سے پہلے ہوئی ہے۔ البتہ معراج کے مکان کے بارے میں اختلاف ہے کہ حضرت ام ہانی کے گھر سے ہوئی ہے یا شعب ابی طالب سے یامسجد الحرام سے۔

البتہ ہماری روایات میں ہے کہ حضورؐ کو ایک سو بیس مرتبہ معراج ہوئی ہے۔ اور وہاں ولایت علی ابن ابی طالب علیہ السلام پر سب فرائض سے زیادہ تاکید کی گئی ہے۔

تذکر: معراج کے بارے میں دیگر مذاہب کے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ معراج خواب میں ہوئی ہے نہ کہ بیداری میں، اور بعض کا خیال ہے کہ معراج روح کے ساتھ تھی نہ کہ بدن کے ساتھ۔

حالانکہ قرآن میں آیا ہے {سبحان الذی أسری بِعَبدِہِ لَیلاً الخ} عبد، (بندہ) روح اور بدن دونوں کے مجموعہ کا نام ہے نہ کہ صرف روح بغیر بدن کے۔

معراج جسمانی کے انکار پر جو دلیل دی جاتی ہے وہ معاویہ اور عائشہ کا قول ہے کہ معاویہ نے کہا کہ معراج سچا خواب تھا اور عائشہ کہتی ہیں معراج کی رات حضور ﷺ کا جسم مبارک ہماری آنکھوں سے پنہان نہیں ہوا۔ حالانکہ معاویہ ۹ ہجری فتح مکہ کے دن مسلمان ہوا اور عائشہ کی شادی ہجرت کے بعد ہوئی ہے اور معراج ہجرت سے پہلے ہوئی ہے۔ فافہم جیداً (پس اچھی طرح سمجھیں اور سوچیں)

البتہ اہل سنت میں بھی ایسے علماء ہیں جو مسئلہ معراج میں شیعہ کے ساتھ متفق ہیں کہ حضورؐ کو معراج بیداری میں جسمانی ہوا ہے۔ (کما فی عقائد النسفی، ص ۲۲۴ و شرح مقاصد ۵/ ۴۸)

مخفی نہ رہے کہ سب انبیاء میں سے معراج صرف ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ کو ہوئی ہے اور کسی نبی کو نہیں ہوئی۔ البتہ آسمان پر شب معراج انبیاء کا ، حضورؐ کا استقبال کرنا اور آنحضرتؐ کا ان کو جماعت کرانا اور ان سے سوال کرنا کہ آپ کو نبوت کس بات پر ملی ہے ان کا جواب دینا کہ خدا کی توحید، آپ کی نبوت اور ولایت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی گواہی دینے پر ملی ہے یہ سب باتیں صحیح و درست ہیں۔

خاتمیت

شیعہ کا عقیدہ یہ ہے کہ حضورؐ پر نبوت کا دروازہ بند ہوگیا حضرت محمد مصطفی ﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا جو بھی ان کے بعد نبوت کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا، کذاب ہے۔ آنحضرتؐ کےآخری نبی ہونے پر بہت سے دلائل ہیں جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:

دلیل اول: ضرورت، جو شخص اسلام کو دلیل منطق کے ساتھ مانے حضورؐ کی خاتمیت کو بھی مانے گا کوئی مسلمان ، آنحضرتؐ کے بعد کسی نئے نبی کے آنے کے انتظار میں نہیں ہے پس مسلمانوں کے نزدیک ختم نبوت ضروریات اور بدیہات میں سے ہے۔

دلیل دوم: ارشاد رب العزت ہے:{ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا}([33])

حضرت محمد ﷺ، تمہارے مردوں میں سے کسی ایک کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور سلسلہ انبیاء کے خاتم ہیں اور اللہ ہر شی کا خوب جاننے والا ہے۔

بعض کا خیال ہے کہ یہاں خاتَم تاء بر فتح، زبر کے ساتھ ذکر ہوا ہے جس کا معنی انگوتھی ہے۔ کسرہ، زیر کے ساتھ نہیں یعنی خاتِم۔ یعنی ختم کرنے والا، لہذا ختم نبوت میں مناقشہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ (خواہ بالفتح ہو یا بالکسر) ہر دو کا معنی تمام ہونا اور ہر چیز کا پایان ہونا ہے یہی وجہ ہے کہ عرب انگوتھی کو خاتَم (بالفتح) کہتے ہیں۔ صدر اسلام میں لوگوں کی انگوٹھیوں کے نگینے ان کی مہریں ہوا کرتی تھیں لہذا جو خطوط اور مکتوبات لکھتے تو ان کے آخر میں اپنی انگوٹھی سے مہر لگاتے تھے۔ جس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ لکھنے والے کے مطالب یہاں پرختم ہیں اگر مہر کے بعد کوئی مطلب لکھے تو یہ لکھائی الحاقی ہوگی جس کا اعتبار نہیں ہے تو اس بناء پر مذکورہ آیت کا مفہوم یہ ہوا کہ حضورؐ کی تشریف آوری سے نبوت کا دروازہ بند ہوگیا چونکہ نبوت کی فہرست میں آخری نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ ہیں جو کہ سب لوگوں کی طرف رسول بن کر آئے ہیں۔ چنانچہ ارشاد ربّ العزت ہے:{ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلا كَافَّةً لِلنَّاسِ}([34]) ہم نے آپ کو سب لوگوں کی طرف رسول بناکر بھیجا ہے۔ نیز ارشاد رب العزت ہے: {قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا}([35]) پیغمبر کہہ دو کہ اے لوگوں! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔ لہذا آنحضرتؐ کے بعد کسی نبی کی ضرورت نہیں ہے۔ آنجنابؐ پر نبوت ختم ہے ان کے بعد قرآن و اسلام کی حفاظت اور لوگوں کے روزمرہ دینی مشکلات کے حل کے لیے امامت و خلافت شروع ہوتی ہے۔

دلیل سوم: آنحضرتؐ کی ختم نبوت پر بہت سی احادیث موجود ہیں۔ حدیث منزلت جوکہ متواتر ہے جس کو سنی و شیعہ نے نقل کیا ہے۔ انت منی بمنزلۃ ہارون من موسی الّا انّہ لا نبی بعدی؛ حضور ؐ نے حضرت علی علیہ السلام کو مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا: تیری منزلت مجھ سے ایسی ہے جیسے ہارون کو موسیٰ سے مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔

معتبر حدیث میں حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا ﷺ نے فرمایا: انبیاء میں میری مثال ایسے ہے کہ کوئی مکان تیار کرے اور وہ کامل اور زیبا ہو صرف ایک اینٹ کی جگہ خالی ہو جو بھی نگاہ کرے کہے گا یہ گھر کتنا زیبا و خوبصورت ہے لیکن یہ ایک اینٹ کی جگہ خالی ہے۔ فرمایا: وہ آخری اینٹ میں ہوں، پیغمبروں کی نبوت مجھ پر ختم ہوئی ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام کافرمان ہے: حلال محمدؐ حلال ابدا الی یوم القیامہ و حرامہ حرام ابداٍ الی یوم القیامۃ([36])؛ حضرت محمد ﷺ کا حلال ہمیشہ کے لیے قیامت تک حلال اور ان کا حرام قیامت تک ہمیشہ کے لیے حرام ہے۔

پس خلاصہ یہ نکلا ختم نبوت ضروری دین ہے۔ قرآنی آیات بھی دلالت کرتی ہیں اور بہت سی احادیث بھی ختم نبوت پر تصریح کرتی ہیں۔


ختم نبوت کا فلسفہ

ممکن ہے کہ کسی کے ذہن میں یہ سوال ہو کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ جب آخری نبی ہیں اور ان کے احکام ہمیشہ کے لیے ہیں جن میں تغیر اور تبدیلی نہیں ہوگی حالانکہ جامعہ بشری، ہمیشہ تحوّل اور دگرگونی میں ہے انسان کے حالات ہمیشہ تبدیلی میں ہیں تو پھرکیسے ممکن ہے کہ ہمیشگی والے احکام، جامعہ انسانی کی ضرورتوں کے لیے ہمیشہ کے لیے کافی ہوں حالانکہ جامعہ بشری میں بڑھتی ہوئی تبدیلی کو ہر کوئی مشاہدہ کر رہا ہے۔ پھر یہ کیسے کہا جائے کہ حضورؐ کے بعد کسی نبی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

اس سوال کے جواب کے لیے درج ذیل نکات پر اچھی طرح توجہ فرمائیں آپ کو متین اور محکم جواب مل جائے گا۔

امّا الجواب: انبیاء کو بھیجنے والے رب العزت کا ارشاد ہے:

{ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الإسْلامُ }([37])

دین اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہے۔

پس دین صرف اسلام ہے۔

پھر ارشاد رب العزت ہے:{وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الإسْلامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ}([38])۔

اور جو اسلام کے علاوہ کوئی بھی دین تلاش کرے گا تو وہ دین اس سے قبول نہ کیاجائے گا اور وہ قیامت کے دن خسارہ والوں میں ہوگا۔

اسلام کے علاوہ کوئی دین قبول نہیں ہے۔

پھر ارشاد رب العزت ہے:{ فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ}([39])

آپ اپنے رخ کو دین کی طرف رکھیں اور باطل سے کنارہ کش رہیں یہ دین و ہ فطرت الٰہی ہے جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے اور خلقت الٰہی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی یقیناً یہی سیدھا اور مستحکم دین ہے مگر لوگوں کی اکثریت اس بات سے بالکل بے خبر ہے۔

دین اسلام فطرت کے ساتھ ہماہنگ ہے اور فطرت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔

پھر ارشاد ربّ العزت ہے:{وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ}([40])

اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جس میں ہر شی کی وضاحت موجود ہے اور یہ کتاب اطاعت گزاروں کے لیے ہدایت ، رحمت اور بشارت ہے۔

پس معلوم ہوا کہ حضورؐ پر نازل ہونے والی کتاب (قرآن) میں ہر چیز کی وضاحت موجود ہے۔

نیز ارشاد ربّ العزت ہے:

{ وَلا رَطْبٍ وَلا يَابِسٍ إِلا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ}([41])

کوئی خشک و تر ایسا نہیں ہے جو کتاب مبین کے اندر محفوظ نہ ہو۔

یعنی قرآن میں ہر خشک و تر کا ذکر موجود ہے۔

پھر ارشاد رب العزت ہے:

{ تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا}([42])

بابرکت ہے وہ خدا جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کیا تاکہ وہ سارے جہانوں کے لیے عذاب الٰہی سے ڈرانے والا بن جائے۔

پس معلوم ہوا کہ حضور ؐ عالمین کے لیے نذیر بن کر آئے ہیں یعنی وہ صرف انسانوں کے لیے مبعوث نہیں ہوئے بلکہ جن و انس اور عالمین (سب جہانوں) کے لیے نذیر بن کر آئے ہیں۔

پھرارشاد ربّ العزت ہے:{ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ }([43])

اورہم نے آپ کو عالمین کے لیے صرف رحمت بناکر بھیجاہے۔

حضورؐ عالمین کے لیے رحمت ہیں۔

پھر ارشاد ربّ العزت ہے:{وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلا كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ}([44])

اور پیغمبر ہم نے آپ کو صرف تمام لوگوں کے لیے بشیر و نذیر بناکر بھیجا ہے یہ اوربات ہے کہ اکثر لوگ اس حقیقت سے باخبر نہیں ہیں۔

یعنی حضورؐ سب لوگوں کی طرف (قیامت تک کے لیے) بشیر اور نذیر بن کر آئے ہیں دین اسلام دین فطرت ہے اور فطرت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی اور آنجنابؐ پر نازل شدہ کتاب قرآن میں ہر خشک و تر کا ذکر موجود ہے اور حضورؐ لوگوں کو قرآن کی تفسیر بیان فرماتے تھے۔ حضورؐ کی رحلت کے بعد اللہ نے بشر کی راہنمائی کے لیے لوگوں کو بغیر راہنما کے نہیں چھوڑا چونکہ حضور پر نبوت کا دروازہ بند ہے لہذا حضورؐ کے بعد امامت کا آغاز ہے حضورؐ کے بارہ معصوم جانشین ہیں جن میں پہلا علی ؑ اور آخری مہدی آل محمد(عج) ہیں جو کہ انبیاء کے علوم کے وارث اور قرآن کے حقیقی مفسر ہیں ہرمسئلہ خواہ وہ جدید ہو یا قدیمی اس کا جواب ان کے پاس موجود ہے۔ لہذا حضورؐ کے معصوم جانشینوں کے ہوتے ہوئے کسی نئے نبی کی ضرورت نہیں ہے۔ فافہم جیداً۔

پھر ارشاد ربّ العزت ہے:{ اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإسْلامَ دِينًا }([45])

آج میں نے تمہارے لیے دین کو مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کر دیا ہے اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسندیدہ بنا دیا ہے۔

جب حضور ؐ آخری حج کر کے واپس لوٹے مقام خم غدیر پر یہ آیت اُتری { يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ}([46])۔

اے پیغمبرؐ! آپ اس حکم کو پہنچا دیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا توگویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کولوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا۔

جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضورؐ نے حضرت علی مرتضی علیہ السلام کا مخصوص منبر پر ہاتھ بلند کرکے ہزاروں صحابہ کے سامنے ان کی ولایت اور خلافت کا اعلان کر دیا۔

من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ؛ جس کا میں مولا (سردار) ہوں اس کا (میرے بعد) علی ؑ مولا و سردار ہے۔

امیر المومنین علی علیہ السلام کے بارے میں حضورؐ کا فرمان ہے :انا مدینۃ العلم و علی بابہا؛ میں علم کا شہر ہوں اور علی ؑ اس کادروازہ ہیں۔

اور حضور کا دین چونکہ عالمین کے لیے ہے لہذا عالمیت کے جتنے مسائل ہوں گے ان سب کا علم حضورؐ کے معصوم جانشین حضرت علی علیہ السلام کے پاس ہے ان کے بعد امام حسن اور ان کے بعد امام حسین اور ان کے بعد ائمہ طاہرین جو کہ ذریت حسین ؑ سے ہیں۔ لہذا کسی نئے نبی کی ضرورت نہیں ہے۔ و الشاہد علی ذلک یہی وجہ ہے کہ سب، حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کی انتظار میں ہیں کہ جب وہ بحکم خدا ظہور فرمائیں گے پوری دنیا کو عدل و انصاف کے ساتھ بھر دیں گے جیسے وہ پہلے ظلم و جور کے ساتھ بھری ہے۔ جدید دور کے تمام جدید مسائل کا حل ان کے پاس موجود ہے۔ لہذا امام کے آنے کی انتظار ہے نہ کہ کسی نئے نبی کے آنے کی۔ فافہم جیداً۔

نیز حضورؐ کا ارشاد ہے کہ میں تم میں دو گراں بہا چیزیں قرآن اور اپنی اہل بیت و عترت کو چھوڑ کر جا رہا ہوں اگر تم نے ان کے ساتھ تمسک رکھا تو گمراہی سے بچ جاؤ گے ، یہ آپس میں ہرگز جدا نہ ہوں گے حتی کہ میرے پاس حوض کوثر تک آجائیں۔

قرآن میں ہر چیز کا ذکر موجود ہے لیکن اس کو اس کے مفسر حقیقی ہی بتا سکتے ہیں۔ قرآن قیامت تک کے لیے ہے تو حضور کی نبوت بھی قیامت تک کے لیے ہے۔ حضورؐ کے بعد آنجناب کے معصوم جانشین جو کہ ان کی اہل بیت سے ہیں قرآن کے حقیقی وارث اور مفسر ہیں ہر نئے مسئلہ کا حلّ ان کے پاس موجود ہے۔ چونکہ حضورؐ کی شریعت کامل و اکمل ہے کامل و اکمل شریعت کے ہوتے ہوئے باوجود حضورؐ کے معصوم جانشینوں کے کسی نئے نبی کی ضرورت نہیں ہے۔

خلاصہ حضور کی ختم نبوت پر درج ذیل دلائل ہیں:

۱۔ ضرورت دین،       ۲۔ آیات،        ۳۔ احادیث،      ۴۔ اجماع مسلمین۔

کوئی مسلمان کسی نئے نبی کے انتظار میں نہیں ہے۔

علم غیب([47])

سب انبیاء و اوصیاء اللہ کی مخلوق اور اس کے نیک بندے ہیں خداوند متعال کی طرف سے بشر کی ہدایت و راہنمائی کے لیے مبعوث ہوئے اور وہ اپنے زمانے میں حجت خدا تھے آخری نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ ہیں جو کہ اللہ کی پوری مخلوق پر حجت اور ان کے بعد ان کے اہل بیت سے ائمہ طاہرین علیہم السلام اللہ کے مکرم بندے اور آنجنابؐ کے جانشین اور حجت خدا ہیں۔ حضرت محمد ﷺ پر نبوت ختم ہے لیکن ان کے بعد امامت کا سلسلہ شروع ہے۔ جس طرح نبی حجت خد ا ہوتا ہے امام معصوم بھی حجت خدا ہوتا ہے لیکن ائمہ طاہرین علیہم السلام امام ہیں نبی نہیں ہیں۔ امام معصوم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ خدا اکرم ہے اس چیز سے کہ کسی کی اطاعت کو بندوں پر واجب قرار دے اور پھر علم کو اس سے چھپا دے۔([48])

سوال: آیا انبیاء علم غیب جانتے ہیں؟

جواب: ہاں وہ خدا کی عطاء اور اذن سے غیب جانتے ہیں۔

سوال: اس دعویٰ کی دلیل کیا ہے؟

جواب: ارشاد رب العزت ہے:{عَالِمُ الْغَيْبِ فَلا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا ۔ إِلا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ}([49])

وہ عالم الغیب ہے اور اپنے غیب پر کسی کو آگاہ نہیں کرتا مگر جس رسول کو پسند کرلے۔

یہی وجہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام لوگوں کو غیبی باتوں سے آگاہ کرتے تھے، جس کی گواہی قرآن نے دی ہے۔

{ وَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَةً لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ}([50])

جو کچھ تم کھاتے ہو اور اپنے گھروں میں ذخیرہ کرتے ہو میں تمہیں اس کی خبر دیتا ہوں۔ ان سب میں تمہارے لیے نشانیاں ہیں اگر تم صاحبان ایمان ہو۔

(حوزہ علمیہ قم کے آقایان غلام رضا کاردان اور احمد مطہری صاحب نے مقام پر اپنے رسالہ علم پیامبر و امام در قرآن میں درج ذیل آیات سے غیب کے بارے میں جو تحریر کیا ہے اس کا ملخص پیش خدمت ہے۔

ارشاد رب العزت ہے:{ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا}([51])

بتحقیق ہم نے آپ کو بھیجا در حالانکہ گواہ اوربشارت دینے والا اور ڈرانے والا ہے۔

{إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولاً شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولاً}([52])

بے شک ہم نے تم لوگوں کی طرف تمہارا گواہ بنا کر ایک رسول بھیجا ہے جس طرح فرعون کی طرف رسول بھیجا تھا۔

مخفی نہ رہے کہ ان آیات میں حضورؐ کو (امت کے اعمال پر) شاہد بیان کیا گیا ہے حالانکہ شاہد (یعنی گواہ) اس وقت ہوسکتا ہے جب وقت عمل میں حاضر اور ان کو مشاہدہ کر رہا ہو۔ (اور یہ آیت مطلق ہے اس میں حیات کی قید کا ذکر نہیں ہے یعنی آپؐ حیات میں اور ظاہری حیات کے بعد بھی شاہد ہیں)

{ إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ } الیکم یہ خطاب پوری امت کی طرف متوجہ ہے اور سب زمانوں کے لیے ہے ۔

اس آیت میں امت کے اعمال پر حضورؐ کی شہادت و گواہی کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ مخفی نہ رہے کہ نیات (نیتیں) بھی عمل میں محسوب ہوتی ہیں تو معلوم ہوا حضورؐ امت کے اعمال اور ان کی نیتوں سے بھی آگاہی رکھتے ہیں اور یہ ایک طرح کی غیبی باتوں پر آگاہی ہے۔

نیز مخفی نہ رہے آیت میں شاہد سے مراد، فعلیت ہے رسالت، بشارت اور انذار کے ساتھ وصف شاہد بھی فعلی ہے چونکہ اوصاف مذکور (رسالت، بشارت اور انذار) فعلی ہیں۔ اور یہاں ان آیات میں شہادت سے مراد تحمل شہادت ہے نہ کہ ادائیگی شہادت چونکہ ادائیگی روز قیامت ہوگی۔

ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ سوال آئے کہ پیغمبرؐ کے لیے آگاہی اعمال، قیامت کے دن حاصل ہو اور پھر وہاں انہیں بطور شاہد پیش کیاجائے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ پیغمبر اسی دنیا میں اعمال پر گواہ ہوتا ہے عدل الٰہی اور مقام شہادت کی مناسبت اسی میں ہے کہ عمل کے وقت وہ حاضر اور آگاہ ہوں عمل کو خود مشاہدہ کریں پھر اس شہود عینی کا اظہار کریں نہ یہ کہ جو شخص عمل کے وقت توحاضر اور آگاہ نہ ہو لیکن فیصلہ سے تھوڑا پہلے یا اسی وقت اس کو بتا دیا جائے اور پھر وہ شہادت دے۔

البتہ بعض دیگر آیات دنیا میں تحمل شہادت پر اور قیامت کے دن گواہی دینے پر دلالت کرتی ہیں۔ انتہی۔)

مخفی نہ رہے کہ انبیاء و اوصیاء کا غیبی امور کو جاننا یہ خداوند متعال کی عطا سے ہے ورنہ کوئی بھی مستقلاٍ و بالذات (خدا کی عطا کے بغیر) غیبت کو نہیں جانتا۔

{ ذَلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ}([53])

پیغمبر یہ سب غیبت کی خبریں ہیں جنہیں ہم وحی کے ذریعے آپ تک پہنچا رہےہیں۔

ایک ضروری نکتہ کی وضاحت

غیب اگرچہ شہود کے مقابلے میں ہے غیب عبارت ہے ان اشیاء کا کہ جو ادراک حسی کے محدودہ سے خارج ہوں اور شہود عبارت ہے ان چیزوں کے ادراک کا جو حواس ظاہری کے محدودہ میں ہوں۔

لیکن مورد بحث میں غیب سے مراد اشیاء کا علم جو معمولی اور عادی ذریعہ سے معلوم نہ ہو خواہ مشاہدات سے ہو یا مغیبات سے۔

صدر اسلام میں علم غیب کی ایک خاص اصطلاح تھی وہ یہ کہ غیب کی نسبت صرف ذاتی علم وآگاہی کو غیب کہتے تھے یعنی علم غیب کا استعمال وہاں ہوتا تھا جہاں عالم، خدا کی طرف سے بغیر دوسرے کی تعلیم کے غیب کوجانتا ہو لہذا تعلیم کے ذریعہ سے غیب پر آگاہی کو وہ اصلاً غیب نہیں کہتے تھے۔ اسی وجہ سے ائمہ طاہرین علیہم السلام جب کوئی آیندہ کی خبر دیتے تو فرماتے یہ علم غیب نہیں ہے بلکہ رسول خدا ﷺ سے ہم نے لیا ہے حالانکہ لغوی حوالے سے اسی طرح کی آگاہی علم غیب ہےاہل لغت کی نگاہ میں فرق نہیں کرتا کہ علم غیب خود عالم کی طرف سے ہو کسی سے لیا ہو۔

امیر المومنین علی علیہ السلام نے جنگ جمل کے بعد بصرہ میں ایک خطبہ میں کچھ آیندہ حوادث کی خبریں دیں تو ایک صحابی نے ان سے سوال کیا کہ کیا آپ غیب جانتے ہیں؟ امام ؑ نے تبسم کرکے فرمایا: لیس ہو بِعِلمِ الغَیبِ وَ اِنَّما ہُوَ تَعَلّمٌ مِن ذِی عِلمٍ([54])؛ یہ علم غیب نہیں ہے یہ تو صرف صاحب علم سے تعلم ہے۔

یا یحیی بن عبد اللہ بن حسن کا امام باقر علیہ السلام سے اس طرح کا سوال کرنا کہ آپ پر قربان ہوجاؤں کچھ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ آپ علم غیب جانتے ہیں، امام علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: لا و اللہ ما ہی الّا وراثۃ عن رسول اللہ ؐ([55])؛ نہ خدا کی قسم جو کچھ ہم جانتے ہیں وہ پیغمبرؐ کے ذریعے سے ہے (ہم پیغمبرؐ کے علم کے وارث ہیں)

یا اس قبیل کی دیگر روایات میں علم غیب کی نفی، وہ اسی اصطلاح خاص جو کہ صدر اسلام میں تھی اس کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی ہے۔ چونکہ نبی اور امام لوگوں کی عقلوں کے مطابق گفتگو فرماتے تھے اور ہمیں لوگوں کی اصطلاح خاص سے غرض نہیں ہے۔ یہ بات مسلمات سے ہے کہ خدا کا علم ذاتی ہے اور انبیاء و اوصیاء کا علم عطائی ہے۔ آیا اس علم عطائی پر غیب کا اطلاق کرنا صحیح ہے یا کہ نہیں؟

یہ بحث ایک طرح کے اجتہاد سے مربوط ہے قدماء اور بعض مفسرین کے نزدیک یہ اطلاق صحیح نہیں ہے لیکن محققین متاخرین کے نزدیک یہ اطلاق صحیح ہے اور حق بھی یہی ہے کہ انبیاء اوصیاء ائمہ طاہرین علیہم السلام خدا کی عطا سے علم غیب جانتےہیں۔ ([56])

و الشاہد علی ذلک:

{ وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لا يَعْلَمُهَا إِلا هُوَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلا يَعْلَمُهَا وَلا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الأرْضِ وَلا رَطْبٍ وَلا يَابِسٍ إِلا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ}([57])

اور اس کے پاس غیب کے خزانے ہیں جنہیں اس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا اور وہ خشک و تر سب کا جاننے والا ہے کوئی پتہ بھی گرتا ہے تو اسے اس کا علم ہے زمین کی تاریکیوں میں کوئی دانہ یا خشک و تر ایسا نہیں ہے جو کتاب مبین کے اندر محفوظ نہ ہو۔

اس آیت میں علم غیب کی جو غیر خدا سے نفی کی گئی ہے وہ علم ذاتی و استقلالی کی ہے یعنی ذاتاً و استقلالاٍ (بغیر عطاء خدا کے) کوئی غیب نہیں جانتا اور اس چیز میں کسی کوکوئی اختلاف نہیں ہے۔ دوسرا نکتہ جو کہ ہمارا محل شاہد ہے وہ یہ ہے کہ آیت میں صراحت کے ساتھ آیا ہے کہ کتاب مبین میں ہر خشک و تر کا ذکر موجود ہے۔

اور کتاب (یعنی قرآن) کا علم پیغمبرؐ کے پاس ہے اور ان کے معصوم جانشین ائمہ طاہرین علیہم السلام کے پاس ہے۔ تو معلوم ہوا کہ وہ پوشیدہ باتوں اور ہر خشک و تر کو جانتےہیں۔

{ وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لا تَأْتِينَا السَّاعَةُ قُلْ بَلَى وَرَبِّي لَتَأْتِيَنَّكُمْ عَالِمِ الْغَيْبِ لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلا فِي الأرْضِ وَلا أَصْغَرُ مِنْ ذَلِكَ وَلا أَكْبَرُ إِلا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ}([58])

وہ عالم الغیب ہے اس کے علم سے آسمان و زمین کا کوئی ذرہ دور (پوشیدہ) نہیں ہے اور نہ اس سے چھوٹا اور نہ بڑا بلکہ سب کچھ اس کی روشن کتاب میں محفوظ ہے۔

تو اس آیت میں صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ جل جلالہ، کائنات کے ذرہ ذرہ کو جانتا ہے کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اور کائنات کے ذرّہ ذرّہ کا ذکرکتاب مبین میں ہے۔

{ وَمَا مِنْ غَائِبَةٍ فِي السَّمَاءِ وَالأرْضِ إِلا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ}([59])

اور آسمان و زمین میں کوئی پوشیدہ چیز ایسی نہیں ہے جس کا ذکر کتاب مبین میں نہ ہو۔

{ وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الأرْضِ وَلا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ ثُمَّ إِلَى رَبِّهِمْ يُحْشَرُونَ }([60])

اور زمین میں کوئی بھی رینگنے والا یا دونوں پروں سے پرواز کرنے والا طائر ایسا نہیں ہے جو اپنی جگہ پر تمہاری طرح کی جماعت نہ رکھتا ہو ہم نے کتاب مبین میں کسی شی کے بیان میں کوئی کمی نہیں کی ہے۔

اگرچہ خود ان آیات سے یہ بات واضح نہیں ہے کہ کتاب مبین سے کیا مراد ہے آیا قرآن ہے یا لوح محفوظ یا کتاب دیگر لیکن چونکہ بہت ساری احادیث میں آیا ہے کہ قرآن میں سب اشیاء کا بیان موجود ہے حتی زمین و آسمان کے غیبی امور، گذشتہ اور آیندہ کے جریانات کو بھی متضمن ہے لہذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ قرآن میں سب حقائق اور سب مسائل حتی امور غیبی بھی پائے جاتے ہیں اس کا مفاد کتاب مبین اور الکتاب جو کہ بعض آیات میں ذکر ہوا ہے مساوی ہے۔

تائید: سورہ زخرف کی آیت دو اور تین میں کتاب مبین سے مراد قرآن لیا گیا ہے۔ { وَالْكِتَابِ الْمُبِينِ ۔ إِنَّا جَعَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ} اس روشن کتاب کی قسم بے شک ہم نے اسے عربی قرآن قرار دیا ہے تاکہ تم سمجھ سکو۔ نیز سورہ دخان کی آیت ۳- ۵۔میں۔

پھر ارشاد ربّ العزت ہے:

{ قُلْ كَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَمَنْ عِنْدَهُ عِلْمُ الْكِتَابِ}([61])

کہہ دیجئے کہ ہمارے اور تمہارے درمیان رسالت کی گواہی کے لیے خدا کافی ہے اور وہ شخص کافی ہے جس کے پاس پوری کتاب کا علم ہے۔

صاحب علم الکتاب سے مراد، اکثر مفسرین کے نزدیک حضرت علی علیہ السلام ہیں۔

نیز ارشاد ہے:{ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ}([62])

اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جس میں ہر شی کی وضاحت موجود ہے۔

پس معلوم ہوا کہ قرآن میں سب حقائق موجود ہیں جن کو وارثان قرآن جانتے ہیں چنانچہ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى بْنِ أَعْيَنَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ قَدْ وَلَدَنِي رَسُولُ اللَّهِ ص وَ أَنَا أَعْلَمُ كِتَابَ اللَّهِ وَ فِيهِ بَدْءُ الْخَلْقِ وَ مَا هُوَ كَائِنٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَ فِيهِ خَبَرُ السَّمَاءِ وَ خَبَرُ الْأَرْضِ وَ خَبَرُ الْجَنَّةِ وَ خَبَرُ النَّارِ وَ خَبَرُ مَا كَانَ وَ خَبَرُ مَا هُوَ كَائِنٌ أَعْلَمُ ذَلِكَ كَمَا أَنْظُرُ إِلَى كَفِّي إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ فِيهِ تِبْيَانُ كُلِّ شَيْ‏ء۔

اصول کافی(ج۱، ص ۱۸۰) میں عبد الاعلی سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سنا کہ فرما رہے تھے کہ میں رسولؐ کا بیٹا ہوں اور میں کتاب اللہ (قرآن) کو جانتا ہوں اس میں ابتدائے خلقت کا ذکر ہے اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے اس کا ذکر ہے اس میں آسمان زمین جنت و دوزخ گذشتہ کی اخبار اور آیندہ ہونے والے واقعات کا ذکر موجود ہے میں ان سب کو ایسے ہی دیکھ رہا ہوں جیسے اپنی ہتھیلی کو دیکھ رہا ہوں بتحقیق اللہ جل شانہ ارشاد فرماتا ہے کہ (قرآن میں) ہر چیز کا بیان موجود ہے۔

عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ حَمَّادٍ اللَّحَّامِ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع نَحْنُ وَ اللَّهِ نَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ وَ مَا فِي الْجَنَّةِ وَ مَا فِي النَّارِ وَ مَا بَيْنَ ذَلِكَ قَالَ فَبُهِتُّ أَنْظُرُ إِلَيْهِ فَقَالَ يَا حَمَّادُ إِنَّ ذَلِكَ فِي كِتَابِ اللَّهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ قَالَ ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ يَوْمَ نَبْعَثُ فِي كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً عَلَيْهِمْ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَ جِئْنا بِكَ شَهِيداً عَلى‏ هؤُلاءِ وَ نَزَّلْنا عَلَيْكَ الْكِتابَ تِبْياناً لِكُلِّ شَيْ‏ءٍ وَ هُدىً وَ رَحْمَةً وَ بُشْرى‏ لِلْمُسْلِمِينَ إِنَّهُ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ فِيهِ تِبْيَانُ كُلِّ شَيْ‏ءٍ ۔([63])

حماد سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ ہم جوکچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور جوکچھ جنت و دوزخ میں ہے اورجو ان کے درمیان ہے (ان سب کو) جانتے ہیں حماد کہتا ہے میں بھت و حیرت کی حالت میں امام علیہ السلام کی طرف دیکھ رہا تھا ! امام علیہ السلام نے فرمایا: اے حماد! ان چیزوں کا علم کتاب خدا (قرآن) میں ہے۔

پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کو (شاہد کے طور پر) تلاوت فرمایا: اور قیامت کے دن ہر گروہ کے خلاف انہیں میں کا ایک گواہ اٹھائیں گے اور پیغمبر آپ کو ان سب کا گواہ بناکر لے آئیں گے اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جس میں ہر شی کی وضاحت موجود ہے اور یہ کتاب اطاعت گزاروں کے لیے ہدایت، رحمت اور بشارت ہے۔ اور اس میں (قرآن میں) ہر چیز کا بیان موجود ہے۔

اگرچہ قرآن ہدایت کی کتاب ہے لیکن اس میں سب حقائق اور غیبی امور کا ذکر بھی موجود ہے۔

سوال: اگر قرآن میں سب حقائق اور غیبی امور کا ذکر موجود ہے تو ہمیں ان کا پتہ کیوں نہیں چلتا؟

جواب: احادیث میں ہے کہ قرآن کا ظاہر ہے اور اس کا باطن ہے اور باطن کے سات بلکہ ستر بطون ہیں اور ان کا علم وارثان قرآن کے پاس ہے۔

{ ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا}([64])

پھر ہم نے اس کتاب کا وارث ان افراد کو قرار دیا ہے جنہیں اپنے بندوں میں سے چن لیا۔

اور انہی وارثوں کا ذکر حدیث متواتر، حدیث ثقلین میں آیا ہے وہ اہل بیت پیغمبر ﷺ ہیں جن میں پہلے حضرت علی علیہ السلام ہیں۔

خلاصہ یہ کہ خدا کا علم ذٓاتی ہے اور انبیاءکا علم عطائی ہے۔

حضور ؐ کےپاس سب انبیاء کا علم ہے اور اسکےعلاوہ خدا نے غیب کا جو علم آنجنابؐ کو عطا فرمایا ہے حضورؐ نے اس کوامیر المومنین علی علیہ السلام کو عطا فرمایا ہے اور امیر المومنین علی علیہ السلام کے ذریعہ باقی ائمہ طاہرین علیہم السلام کو ملا ہے۔ قرآن کی بعض آیات علم غیب کو ثابت کرتی ہیں اور بعض آیات علم غیب کی نفی کرتی ہیں۔

جن آیات اور احادیث میں علم غیب کی نفی کا ذکر آیا ہے یا تو اس سے مراد غیب ذاتی و استقلالی ہے یا ان سے مراد وہ علم خاص ہے جو خدا کے پاس ہے جیسے قیامت کا علم یاعلم کے اظہار کی عدم اجازت مراد ہے یا علم ظاہری کی نفی مراد ہے جو کہ عادی اسباب اور ظاہری امارات سے حاصل ہوتا ہے أو غیر ذلک۔

قرآنی آیات کے علاوہ اکثر احادیث،معصومین علیہم السلام کے لیے علم غیب رکھنے کوثابت کرتی ہیں اور یہ احادیث ، نافیہ احادیث کی نسبت زیادہ اور سند کے حوالے سے صحیح تر ہیں اور مشہور بھی ہیں۔

اور غیب کی نفی کرنے والی روایات اور مشیئت سے مقید کرنے والی اور نسیان انبیاء والی روایات،شاذ اور موافق اہل سنت ہیں لہذا علم غیب کی نفی کرنے والی روایات قابل اعتماد نہیں ہیں مضافا بر اینکہ نافیہ روایات میں تقیہ کااحتمال بھی پایا جاتا ہے۔

بلکہ معتبر روایات میں ہے کہ اسم الاکبر (اعظم) کےتہتر حروف ہیں جن میں بہتر (۷۲) کا علم خدا نے حضرت محمد مصطفی ﷺ کو دیا اور ان سے ائمہ طاہرین علیہم السلام کو ملا ہے۔

اسم اعظم کے حروف سے حضرت آصف بن برخیا کے پاس صرف ایک حرف کا علم تھا جس کی وجہ سے وہ آنکھ جھپکنے سے پہلے دو ماہ کی دورمسافت سے بلقیس کے تخت کو حضر ت سلمان نبی کے پاس حاضر کردیا حضرت عیسیٰ کے پاس صرف دو حرفوں کا علم تھا جن کے ذریعہ وہ مردوں کو باذن اللہ زندہ کرتے اورنابیناؤں اور مریضوں کو شفا اور غیبی اخبار دیتے تھے اور جن کے پاس بہتّر کا علم ہو ان کے بارے میں کیا خیال ہے کہ وہ کتنی قدرت کے مالک ہیں۔

تو اس بناء پر یہ کہ ائمہ معصومین علیہم السلام غیبی امور سے بعض جزئی امور کا علم رکھتے ہیں یہ نظریہ صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ اوّلاً تو وہ قرآن کے وارث ہیں اور قرآن میں سب حقائق موجود ہیں و ثانیاً شب قدر تمام مقدرات سال، ملائکہ اور روح ہر زمانہ کے امام و معصوم کے پاس لے کر آتے ہیں و ثالثاً ان کے پاس اسم اعظم کے بہتر حروف کا علم ہے و رابعاً ان کے پاس مصحف فاطمہ علیہا السلام ہے جس میں قیامت تک کے واقعات کا ذکر موجود ہے و ۔۔۔

أمّا علم معصومین علیہم السلام کی کیفیت کے بارے میں کہ وہ حضوری ہے یا ارادی تو اس میں علماء کے دوقول ہیں اور مشہور بین العلماء قول اوّل ہے البتہ یہاں تفصیل کا قائل ہوجانا بھی ممکن ہے وہ یہ کہ جن امور کے علم کی احتیاج ہو ان کا علم بالفعل اور حضوری ہو اور جن امور کے علم کی احتیاج نہ ہو اگر ان کو جاننا چاہیں توجان لیتے ہیں ان کی نسبت ارادی ہو تو اس سے جمع بین الروایات اوراقوال ہوجائے گی۔ مگر یہ کہ یہ کہا جائے کہ علم ارادی بھی علم حضوری کے حکم میں ہے چونکہ ارادہ پرکوئی زور تو نہیں لگتا توپھر سرے سے بحث ہی ختم ہوجائے گی۔ وا للہ العالم۔


توسل

شیعہ کا عقیدہ ہے کہ انبیاء ، اوصیاء و اولیاء اللہ کے مکرم بندے ہیں۔ مشکلات میں خدا سے دعا کرتے ہوئے ان صالحان کو اپنا وسیلہ بنایا جاسکتا ہے اور ان سے توسل بلا اشکال ہے اور اس کا شرک کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے چونکہ ارشاد رب العزت ہے: { يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ}([65])

اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس تک پہنچنے کا وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو کہ شاید اس طرح کامیاب ہوجاؤ۔

اگرچہ سب نیک اعمال بھی وسیلہ ہیں لیکن سب وسیلوں سے اشرف وسیلہ حضرت محمد مصطفی ﷺ اور انکی پاک آل ہیں کہ اگر آنجنابؐ کسی گنہگار کی بخشش کے لیے طلب مغفرت کریں تو خدا گنہگاروں کو بخش دیتا ہے چنانچہ ارشاد رب العزت ہے:

{ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا}([66])

اے کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا تو آپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لیے طلب مغفرت کرتے اور رسول بھی ان کے حق میں طلب مغفرت کرتے تویہ خدا کو بڑا ہی توبہ کرنے والا اورمہربان پاتے۔

سوال: آنجنابؐ کی رحلت کے بعد وہ کیسے سنتے ہیں اور کیسے مدد کرتےہیں؟

جواب: اولاً: یہ آیت مطلق ہے اس میں حیات کی قید نہیں ہے وہ حضورؐ کی زندگی میں ان کے پاس آئیں اور طلب مغفرت کی ان سے درخواست کریں یا ان کی رحلت کے بعد ان کی قبر اطہر پر درخواست پیش کریں۔

و ثانیاً، موت نابودی کا نام نہیں ہے بلکہ أنس صحابی سے مروی ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: انبیاء کرام اپنی قبروں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں([67]) یہی وجہ ہے کہ مسلمان نماز میں حضور ؐ کو السلام علیک ایھا النبی کہہ کر سلام کرتا ہے یعنی ان کومخاطب اور حاضر سمجھ کر سلام کرتا ہے (ک ضمیر خطاب کی ہے) اوراگر موت نابودی کا نام ہے کہ پھر نعوذ باللہ نابود کو مخاطب کرنا چہ معنی دارد؟ حالانکہ آنحضرت ؐ کو جو کوئی سلام کرتا ہے وہ اس کا جواب دیتے ہیں،خواہ وہ سلام دور سے کرے یا نزدیک سے۔ نیز جو آنجنابؐ پر درود بھیجتا ہے اس پر وہ آگاہ ہیں(خواہ بدون واسطہ یا بواسطہ مَلک) اور معتبر روایات میں ہے کہ جب بھی دعا کرو تو درود کے ساتھ کرو تو یہ کیسے باور کیا جائے کہ درود کی آواز تو آنجنابؐ تک پہنچ جائے لیکن استغاثہ کی آواز نہ پہنچے۔ بلکہ حضورؐ نے ان کے ساتھ توسل اور پکارنے کا خود حکم دیا ہے اور یہ روایت صحاح ستہ اہل سنت میں موجود ہے جو کہ سند کے حوالے سے صحیح بھی ہے۔ جس کا خلاصہ یہ کہ جناب عثمان بن حنیف روایت کرتے ہیں کہ ایک نابینا شخص حضورؐ کی خدمت میں آیا اور حضورؐ سے شفا کی درخواست کی توآپ نے فرمایا:اگر میں تیرے حق میں دعا نہ کروں تو بہتر ہے (یعنی اس نابینائی پر صبر کرے گا تو ماجور ہے) اگر چاہتا ہے تو میں دعا کرتا ہوں تو اس نے عرض کیا کہ آپ دعا کریں تو آپ نے اس کو حکم دیا کہ وضو کرے اور دو رکعت نماز پڑھے اور یہ دعا پڑھے:

اللہم انی اسألک و اتوجّہ الیک بِمُحَمَّدٍ نبیّ الرحمۃ یَا محمّد اِنی قد توجّہت بک الی ربّی فی حاجتی فی ہذہ لِتُقضیٰ اللہم فشفعہ فِیّ۔

اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف متوجہ ہوا ہوں تیرےنبی محمد ﷺ کے واسطہ سے، اے محمد ؐ میں آپ کے واسطہ سے اپنے پروردگار کی طرف متوجہ ہوں اپنی حاجت میں تاکہ پوری ہو خدایا تو ان کی شفاعت کو میرے حق میں قبول فرما۔([68])

مسند احمد میں منقول ہے کہ اس شخص نے ایسا ہی کیا اور شفا پاگیا۔ تو یہ دعا صرف اسی شخص کے لیے نہیں تھی بلکہ ہر کوئی اسے پڑھ سکتا ہے اور حضورؐ سے توسل کرسکتا ہے یہی وجہ ہے کہ علماء اہل سنت نے اس روایت کو صلوۃ حاجت کے باب میں نقل کیا ہے۔ اب اگر کوئی شخص یہ دعا پڑھے اور حضورؐ کو بارگاہ الٰہی میں اپنا وسیلہ بنائے اور ان سے توسل کرے اگر آنجنابؐ اس کی آواز نہیں سنتے تو پھر دعا کے اس جملے یا محمد اِنّی قد توجّہتُ بک الی ربّی کا کیا مطلب باقی رہتا ہے۔

نہ صرف نبی اکرمؐ ہماری آواز کو سن سکتے ہیں بلکہ وہ دیکھ بھی سکتے ہیں چنانچہ صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ جب میت قبر میں رکھی جاتی ہے تو منکر نکیر سوالات کے لیے حاضر ہوجاتے ہیں تو وہ اس سے پوچھتے ہیں: ما کنت تقول فی ہذا الرجل محمدؐ؛ کہ تو اس شخص یعنی محمدؐ کے بارے میں کیا عقیدہ رکھتا تھا۔([69])

اس روایت کے بارےمیں ابن حجر مکی سے سوال کیا گیا کہ ہذا الرجل، کلمہ ہذا، حضورؐ پر اشارہ کرتا ہے کہ وہ حاضر ہوں حالانکہ ایک ہی وقت میں بہت لوگ مرتے ہیں اور ادھر ہر میت سے یہی سوال ہو رہا ہے تو ایک ہی وقت میں نبی پاک کس طرح سب کے پاس حاضر ہوتے ہیں تو اسکا جواب ابن حجر، امام عارف ابن ابی حمزہ کے قول سے دیتے ہیں کہ ہذا الرجل سے مراد نبی پاکؐ کی ذات گرامی ہیں اور ان کی رؤیت آنکھوں کے ساتھ ہوتی ہے اور یہ خدا کی قدرت ہے کہ لوگ ایک ہی وقت مختلف جگہوں پر مرتے ہیں اور وہ سب ان کو نزدیک سے دیکھتے ہیں۔ ([70])

اگر خدا کی قدرت سے مرنے والا ان کو نزدیک سے دیکھ سکتا ہے تو کیا نبیوں کا سردار باذن اللہ کائنات میں تصرف نہیں کرسکتا؟

بعض نومولود فرقوں کا یہ شبھہ کہ روح جب نکل جاتی ہے تو میت کیا سنے گی حالانکہ خود ان کی کتب میں موجود ہے کہ اموات آوازوں کو سنتے ہیں جو ان کی زیارت کے لیے جاتا ہے وہ اس کو پہچانتےہیں بلکہ سلام کا جواب بھی دیتے ہیں۔

امام محمد بن یوسف صالحی شامی اپنے کتاب سبل الہدی ج۱۲، ص ۳۵۵ پر شیخ جمال الدین اردبیلی شافعی کی کتاب الانوار فی اعمال الابرار سے امام بیہقی کا قول نقل کیا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی رحلت کے بعد ان کی ارواح ان کی طرف پلٹا دی جاتی ہیں اور وہ اپنے پروردگار کے پاس زندہ ہیں۔

و ثالثاً: ارشاد رب العزت ہے:{وَلا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لا تَشْعُرُونَ}([71])

اور جو لوگ راہ خدا میں قتل ہوجاتے ہیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہے۔

کیا آپ نہیں دیکھتے کہ اس دور میں موبائل ایک آلہ ہے جس سے دنیا کے ہر کونے میں آواز پہنچ سکتی ہے (بلکہ بولنے والے کی تصویر بھی دیکھی جاسکتی ہے) خدا کی قدرت کا تو اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ تو اس میں کیا بُعد ہے کہ خدا کے خاص بندے بغیر آلہ کے بھی ان کی پکار سن لیں بلکہ بغیر آلہ کے خدا نے آج سے کئی ہزار سال پہلے حضرت ابراہیم خلیل کی آواز زمین و آسمان میں سنوائی تھی جیسا کہ اہل سنت کی معتبر کتب میں یہ روایت نقل ہوئی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام بیت اللہ کو تیار کرچکے تو عرض کیا پروردگارا میں نے یہ گھر تیار کر دیا ہے تو حکم ہوا کہ { أَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ }([72])لوگوں میں حج کرنے کا اعلان کردو کہا میری آواز (سب تک) نہیں پہنچے گی فرمایا تم اعلان کردو و علیّ البلاغ پہنچانا میرا کام ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پتھر پر یا صفا پر یا مقام پریا أبی قبیس پہاڑ پر کھڑے ہوکر حج کا اعلان کردیا کہ حج تم پر واجب ہے تو ان کی آواز کو جو کوئی زمین و آسمان کے درمیان تھا سب نے سنا حتی کہ باپوں کے صُلبوں اور ماؤں کے رحموں میں بچوں اور نطفوں نے بھی وہ آواز سنی اور سب نے لبیک کہا، قیامت تک جو لوگ حج پر مشرف ہوتے ہیں یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کےاعلان کی اجابت کا اثر ہے۔ ([73])

متشکلین کچھ انصاف سے بھی کام لیں جو خدا کائنات کے معدومین تک معصوم کی آواز پہنچا سکتا ہے کیا وہ ہماری آواز قبر میں زندہ معصوم تک نہیں پہنچا سکتا۔

مخفی نہ رہے کہ دعا صرف خدا سے ہی کی جاتی ہے اور وہی کائنات کا خالق و مالک ہے لیکن اسکی بارگاہ میں اس کے مقربان کوواسطہ اور وسیلہ قرار دینا یہ منافی توحید نہیں ہے بلکہ وسیلہ کا حکم تو ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کو بھی دیا گیا تھا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب خدا نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور ان میں اپنی روح ڈالی تو حضرت آدم علیہ السلام عرش کے دائیں جانب ملتفت ہوئے تو انہیں پانچ نور نظر آئے جو رکوع اور سجود کی حالت میں تھے تو عرض کیا پروردگارا! کیا مجھ سے پہلے بھی کسی کو مٹی سے خلق کیا ہےفرمایا: نہیں، تو آدمؑ نے عرض کیا پس یہ پانچ کون ہیں؟ فرمایا: یہ تیری اولاد سے ہوں گے ان کےلیے میں نے اپنے ناموں سے نام مشتق کیئے ہیں اگر یہ ہستیاں نہ ہوتیں تو میں جنت ،دوزخ، عرش، کرسی، آسمان و زمین، ملائکہ،جن و انس کسی کو بھی خلق نہ کرتا (جو کچھ خلق کیا ہے انہی کی وجہ سے ہے) میں محمود ہوں یہ محمد ؐ ہے، میں عالی ہوں یہ علی ؑ ہے، میں فاطر ہوں یہ فاطمہ ؑ ہے، میں احسان ہوں یہ حسن ؑ ہے اور میں محسن ہوں یہ حسین ؑ ہے۔ جو بھی دل میں ان کا بغض رکھ کر آئے گا میں اسےجہنم میں ڈالوں گا۔

فاذا کان لک حاجۃ فہؤلاء توسل؛ اے آدم جب بھی تجھے کوئی حاجت ہو تو انہی کے ذریعہ سے توسل کر۔

حضورؐ ارشاد فرماتےہیں: ہم نجات کی کشی ہیں جس نے اس کے ساتھ تعلق پکڑا وہ نجات پاگیا اور جس نےمخالفت کی وہ ہلاک ہوا۔

فمن کان لہ الی اللہ حاجۃ فلیسأل بنا أہل البیت؛ جس کی کوئی خدا کی طرف حاجت ہو پس وہ ہم اہل بیت کے ذریعہ، خدا سے سوال کرے۔ ([74])

سوال:خدا تو قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:{ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ تا آخر آیت}([75])

اےپیغمبر! اگر میرے بندے تم سے میرےبارے میں سوال کریں تو میں ان سے قریب ہوں پکارنے والے کی آواز سنتا ہوں جب بھی پکارتا ہے لہذا مجھ سے طلب قبولیت کریں اور مجھ ہی پر ایمان و اعتماد رکھیں کہ شاید اس طرح راہ راست پر آجائیں۔

تو اس بنا پر ممکن ہے کہ کوئی کہے کہ جب خدا ہر پکارنے والے کی آواز سنتا ہے توپھر واسطہ اور وسیلہ کی ضرورت کیا ہے؟

جواب: قرآنی آیات ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہیں، خود قرآن ہی ارشاد فرماتا ہے کہ { وَلِلَّهِ الأسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا}([76]) اور اللہ کے لیے بہترین نام ہیں لہذا اسے انہی کے ذریعہ سے پکارو۔

امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتےہیں:نحن و اللہ الاسماء الحسنی؛ خدا کی قسم اسماء حسنی ہم ہیں ہماری معرفت کے بغیر خدا بندوں سے قبول نہیں کرتا۔([77])

امام رضا علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: اذا نزلت بکم شدۃ فاستعینوا بنا علی اللہ وہو قولہ تعالیٰ (وللہ الاسماء الحسنیٰ فادعوہ بہا) جب تم پر کوئی مصیبت آئے تو ہمارے ذریعہ سے اللہ سے مدد مانگو۔ اور یہ قول خداوندی ہے کہ اللہ کے لیے اسماء حسنی ہیں لہذا اسے انہی ناموں کے ذریعہ سے پکارو پھر امامؑ نے امام جعفر صادق علیہ السلام کے مذکورہ فرمان کو ذکر فرمایا۔([78])،([79])

نیز ارشاد رب العزت ہے:{ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ}([80]) اے مومنو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو۔

حضرت جابر سے مروی ہےکہ حضورؐ نے ارشاد فرمایا: نحن الوسیلۃ الی اللہ؛ اللہ کی بارگاہ میں ہم وسیلہ ہیں۔

دعا اور پکار کو خدا سنتا ہے لیکن یہ اس چیز کے ساتھ منافات نہیں رکھتا کہ دعا اور پکار استجابت کے لیے زمان، مکان اور وسیلہ کے حوالے سے شرائط ہوں چنانچہ حضرت آدم کی توبہ، کلمات کے ذریعہ ہوئی ارشاد رب العزت ہے:

{ فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ}([81])

پھر آدم نےپروردگار سے کلمات کی تعلیم حاصل کی اور ان کی برکت سے خدا نے ان کی توبہ قبول کرلی کہ وہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔

وہ کلمات کیا تھے؟ اہل سنت کے مفسرین نے ذکر کیا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے محمد وآل محمدؐ کا واسطہ دیا تو خدا نے ان کی توبہ قبول فرمائی۔([82])

جب برادران حضرت یوسف علیہ السلام اپنی خطاء پر نادم ہوئے تو اپنی بخشش کے لیے اپنے والد حضرت یعقوب علیہ السلام کے پاس آئے اور ان کو اللہ کے دربار میں واسطہ قرار دیا کہ آپ ہمارے لیے استغفار کریں (چونکہ انہیں معلوم تھا کہ نبی کا اللہ کے ہاں بلند مقام ہے) چنانچہ قرآن میں ہے:{ قَالُوا يَا أَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا إِنَّا كُنَّا خَاطِئِينَ ۔ قَالَ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ}([83])

ان لوگوں نے کہا: بابا جان! آپ ہمارے گناہوں کے لیے استغفار کریں ہم یقیناً خطاء کار تھے انہوں نے کہا میں عنقریب تمہارے حق میں استغفار کروں گا میرا پروردگار بہت بخشنے والا اور مہربان ہے۔

ایک روایت میں امام جعفر صادق علیہ السلام (سوف أستغفر لکم ربی) کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے (دعا) استغفار کو سحری تک مؤخر کیا پھر ان کے لیے دعا و استغفار کی تو خدانے وحی کے ذریعہ بتایا کہ میں نے ان کا گناہ بخش دیا ہے۔ ([84])

تو یہاں کئی ایک نکات کا استفادہ ہوتا ہے۔

  1. 1.کہ گذشتہ امتوں میں بھی مقربان خدا کو وسیلہ بنایا جاتا تھا۔
  2. 2.قرآن نے اس وسیلہ، توسل کا ذکر کیا ہے اور پھر اس سے منع نہیں فرمایا کہ یہ تو حضرت یعقوب علیہ السلام کی شریعت کی بات ہے اور آپ کے لیے ایسا جائز نہیں ہے۔
  3. 3.حرف سوف سے استفادہ ہوتا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے ان کے لیے فوراٍ دعا و استغفار نہیں کیا بلکہ اسے بناءبر روایتی سحری تک موخر کیا کہ وہ وقت دعا و استغفار کی استجابت کے بہترین اوقات سے ہے۔ دعا و استغفار ہر وقت کیا جاسکتا ہے لیکن اس کی قبولیت کے کچھ خاص اوقات ہیں تو معلوم ہوا دعا و استغفار کی قبولیت میں زمان خاص بھی مؤثر ہے۔ مثلاً شب جمعہ اور روز جمعہ خصوصاً اس کا آخر وقت، نماز کے بعد، زوال کے وقت، باران رحمت کے نزول کے وقت و ۔۔۔ دعا کی قبول کے اوقات ہیں۔
  4. 4.خدا توشہ رگ حیات سے بھی زیا دہ قریب ہے اور جو کوئی اسے پکارے وہ سنتا ہے۔ تو اس چیز کے باوجود برادران یوسف علیہ السلام نے خود ڈائریکٹ خدا سے دعا و استغفار کیوں نہ کی بلکہ اپنے وقت کے نبی کے پاس آئے اور ان کو وسیلہ بنایا تو معلوم ہوا بارگاہ الٰہی میں مقربان خدا کو اپنا وسیلہ بنانا عقلاً، عرفاً اور شرعاٍ مطلوب اور مشروع ہے اور اس چیز کا شرک کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔

ایک شبھہ کا ازالہ

محمد بن عبد الوہاب اور اس کا گروہ کہتا ہے کہ صالحان سے توسل، شرک اکبر ہے۔ اور دلیل کے طور پر سورہ اسرائیل کی آیت ۵۷ کو مطرح کیا ہے (یہ جن کو خدا سمجھ کر پکارتے ہیں وہ خود ہی اپنے پروردگار کے لیے وسیلہ تلاش کر رہے ہیں کہ کون زیادہ قربت رکھنے والا ہے) اس آیت میں مشرکین کی ردّ کی گئی ہے۔

اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ یہ آیت مشرکین کے نزدیک جو توسل رائج تھا اس کے مربوط ہے نہ کہ جو توسل مسلمانوں کے نزدیک رائج ہے۔ مشرکین کےنزدیک جو توسل رائج تھا وہ بتوں کی عبادت پر منتہی ہوتا تھا (پھر وہ ان کے لیے قربانیاں وغیرہ کرتے تھے)۔

مشرکین ان کی عبادت کرتے تھے اور پھر انہیں اپنا شفیع کہتے تھے:

{ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لا يَضُرُّهُمْ وَلا يَنْفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَؤُلاءِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اللَّهِ قُلْ أَتُنَبِّئُونَ اللَّهَ بِمَا لا يَعْلَمُ فِي السَّمَاوَاتِ وَلا فِي الأرْضِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ}([85])

اور یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر ان کی پرستش کرتے ہیں جو نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ فائدہ اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ خدا کے یہاں ہمارے سفارش کرنے والے ہیں تو آپ کہہ دیجئے کہ تم تو خدا کو اس بات کی اطلاع کر رہے ہو جس کا علم اسے آسمان و زمین میں کہیں نہیں ہے وہ پاک و پاکیزہ ہے اور ان کے شرک سے بلند و برتر ہے۔ حالانکہ کوئی مسلمان، کسی نبی یا ولی کی عبادت نہیں کرتا بلکہ ان کو خدا کی مخلوق مانتےہیں چونکہ انبیاء و اولیاء، اللہ کے مقرب بندے ہیں لہذا بارگاہ الٰہی میں ان کا واسطہ دیتے ہیں تو اس چیز کا شرک کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔

اور جو لوگ اس کو شرک سمجھتے ہیں وہ انبیاء اور اولیاء کے سامنے احترام اور خشوع کو ان کی عبادت سمجھ بیٹھے ہیں حالانکہ مطلق خضوع عبادت نہیں ہوا کرتی چونکہ ہم اپنے والدین ، اساتید اور بزرگان وغیرہ کے سامنے خضوع کرنے پر مامور ہیں اگر مطلق خضوع عبادت محسوب ہو تو لازم آتا ہے کہ شارع مقدس نے ان کی عبادت کرنے کا حکم دیا ہے حالانکہ شارع مقدس غیر اللہ کی عبادت کا حکم نہیں دیتا۔

خلاصۃ الکلام یہ کہ جن آیات میں غیر خدا کوپکارنے کی مذمت آئی ہے وہ اس جہت سے ہے کہ وہ لوگ ان کو خدا سمجھ کر پکارتے تھے اور یہ بات عقیدہ توحید کے ساتھ منافات رکھتی ہے۔ اولیاء خدا، معصومین علیہم السلام کو خدا کےدربار میں وسیلہ قرار دینا اور ان کو بطور شفیع و وسیلہ، مدد کےلیے پکارنا اس کا شرک کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ ان کی مدد، خدا کی مدد ہے، محمد و آل محمد علیہم السلام باب اللہ اور مخلوق پر خدا کی حجت ہیں ان سے افضل، کائنات میں کوئی وسیلہ نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت آدم نے بھی خدا کے دربار میں محمد و آل محمدؐ کا واسطہ دیا تھا اور ان کی وجہ سے ان کی توبہ قبول ہوئی۔ اور ہر نبی نے اپنی دعاؤں میں محمد وآل محمد علیہم السلام کا واسطہ دیا ہے۔


 

 

 



[1]۔سورہ نساء، آیت ۱۶۵۔

[2]۔سورہ انفال، آیت ۴۲۔

[3]۔۔سورہ انعام، آیت ۱۴۹

[4]۔سورہ جمعہ، آیت ۲۔

[5]۔سورہ بنی اسرائیل، آیت ۱۵۔

[6]۔سورہ نحل، آیت ۳۶۔

[7]۔سورہ جمعہ، آیت ۲۔

[8]۔سورہ حدید، آیت ۲۵۔

[9]۔سورہ بقرہ، آیت ۲۱۳۔

[10]۔اولو العزم وہ انبیاء ہیں جو صاحب شریعت ، نیا دین لے کرآئے۔

[11]۔حضرت ایوب علیہ السلام کے متعلق جن نفرت انگیز بیماریوں کا ذکر کیاجاتاہے یہ صحیح نہیں ہے۔ ان کی پوری بیماری کے دوران ہرگز بدبو اور بدصورتی سے دوچار نہیں ہوئے اور ان کے بدن سے ہرگز کوئی نفرت انگیز چیز نہیں نکلی بلکہ لوگوں کی ان سے دوری انکی تنگدستی،فقر اور ظاہری ضعف کی وجہ سے تھی۔ کما عن الصادق علیہ السلام۔ خصال، شیخ صدوق، ج۱/ ۴۰۰،ابواب ہفتگانہ۔

[12]۔وہ شجرہ کیا تھا اس کی تفصیل کے لیے مطولات کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔

[13]۔سورہ اعراف، آیت ۱۹۔

[14]۔سورہ اعراف، آیت ۲۳۔

[15]۔سورہ طہ، آیت ۱۱۷۔

[16]۔سورہ صف، آیت ۶۔

[17]۔سورہ اعراف، آیت ۱۵۷۔

[18]۔سورہ بقرہ، آیت ۱۴۶۔

[19]۔سورہ اسرائیل، آیت ۸۸۔

[20]۔سورہ ہود، آیت ۱۳۔

[21]۔سورہ بقرہ، آیت ۲۳۔

[22]۔تفسیر فتح القدیر شوکانی، ج۲، ص ۸۸؛ تفسیر در المنثور، ذیل آیہ تبلیغ۔

[23]۔سورہ مبارکہ حجر، آیت ۹۔

[24]۔سورہ فصلت، آیت ۴۱- ۴۲۔

[25]۔الاتقان، ج۳، ص ۷۲، و کتب دیگر۔

[26]۔تفسیر فتح القدیر، ج۱، ص ۲۵، و کتب دیگر۔

[27]۔فتح الباری شرح صحیح بخاری، ج۸، ص ۶۱۵، تفسیر ابن کثیر، ج۴، ص ۲۰۹۶۔

[28]۔تفسیر فتح القدیر، ج۵، ص ۷۳۸؛ فتح الباری، ج۸، ص ۶۱۵؛ تفسیر ابن کثیر، ج۴، ص ۲۰۹۶۔

[29]۔تفسیر فتح القدیر، ج۵، ص ۷۳۸ و کتب دیگر۔

[30]۔فتح الباری، ج۸، ص ۶۱۵؛ تفسیر ابن کثیر، ج۴، ص ۲۰۹۶۔

[31]۔ج۸، ص ۶۱۵۔

[32]۔حق الیقین، ص ۱۶۸ (للسید الشبرّ)۔

[33]۔سورہ احزاب، آیت ۴۰۔

[34]۔سورہ سبا، آیت ۲۸۔

[35]۔سورہ اعراف، آیت ۱۵۸۔

[36]۔اصول کافی، ج۱/ ۵۸۔

[37]۔سورہ آل عمران، آیت ۱۹۔

[38]۔سورہ آل عمران، آیت ۸۵۔

[39]۔سورہ مبارکہ روم، آیت ۳۰۔

[40]۔سورہ مبارکہ نحل، آیت ۸۹۔

[41]۔سورہ مبارکہ انعام، آیت ۵۹۔

[42]۔سورہ مبارکہ فرقان، آیت ۱۔

[43]۔سورہ مبارکہ انبیاء، آیت ۱۰۷۔

[44]۔سورہ مبارکہ سبا، آیت ۲۸۔

[45]۔سورہ مبارکہ مائدہ، آیت ۳۔

[46]۔سورہ مبارکہ مائدہ، آیت ۶۷۔

[47]۔اگرچہ ہماری بحث انبیاء کے بارے میں ہے لیکن یہاں پر علم غیب کے بارے میں کلی اور وسیع طور پر بحث مطرح کرتے ہیں تاکہ حضورؐ کے خلفاء ائمہ طاہرین علیہم السلام کو بھی شامل ہوجائے پھر ان کے لیے الگ بحث کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔

[48]۔اصول کافی، ج۲، ص ۳۰۶۔ ۳۱۰، ناشر انتشارات اسوہ۔

[49]۔سورہ جن، آیت ۲۶۔ ۲۷۔

[50]۔سورہ مبارکہ آل عمران، آیت ۴۹۔

[51]۔سورہ مبارکہ فتح، آیت ۸۔

[52]۔سورہ مبارک مزمل، آیت ۱۵۔

[53]۔سورہ یوسف، آیت ۱۰۲۔

[54]۔نہج البلاغہ، خطبہ ۱۲۴۔

[55]۔امالی شیخ مفید، ص ۱۱۴۔

[56]۔سوال: ائمہ معصومین علیہم السلام کو جب مسموم پانی یا انگور وغیرہ دیئے جاتے تو کیا ان کو اس چیز کا علم ہوتا تھا؟ اور علم ہونے کی صورت میں کیا یہ خودکشی کے زمرے میں نہیں آتا؟

جواب:ائمہ طاہرین علیہم السلام کو اپنی شہادت کا علم ہوتا ہے لیکن وہ مشیت الٰہی کے سامنے تسلیم ہوجاتے ہیں اس کی مثال ایسے ہے جیسے حضور ﷺ اگر کسی کو جہاد کا حکم دیں اور ساتھ ہی اس کو اس کی شہادت کی خبر بھی دے دیں اب اس مرد حق کے لیئے میدانِ جنگ میں جانا بھی واجب ہے لیکن یہ بھی جانتا ہے کہ اگر میدان میں گیا تو یقیناً مارا جائے گا اور جانے کی صورت میں خودکشی نہیں ہے۔ آئمہ معصومین علیہم السلام کا مسئلہ بھی اسی قبیل سے ہے۔ اگرچہ مسئلہ میں دیگر اقوال بھی ہیں لیکن وہ ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہیں کیونکہ معصومین کی عصمت کے ساتھ منافات رکھتے ہیں۔

[57]۔سورہ انعام، آیت ۵۹۔

[58]۔سورہ سبا،آیت ۳۔

[59]۔سورہ نمل، آیت ۷۵۔

[60]۔سورہ انعام، آیت ۳۸۔

[61]۔سورہ رعد، آیت ۴۳۔

[62]۔سورہ نحل، آیت ۸۹۔

[63]۔تفسیر عیاشی۔

[64]۔سورہ فاطر، آیت ۳۲۔

[65]۔سورہ مائدہ، آیت ۳۵۔

[66]۔سورہ نساء، آیت ۶۴۔

[67]۔سُبل الہدی، ج۱۲/ ۳۶۷، تالیف امام محمد بن یوسف صالحی شامی۔

[68]۔سنن ترمذی، ج۵، ص ۵۳۱،باب ۱۱۹،حدیث ۳۵۷۸،طبع دار الفکر؛ سنن ابن ماجہ، ج۱/ ۴۴۱،باب ما جاء فی صلوۃ الحاجۃ ؛ مسند احمد، ج۴/ ۱۳۸، طبع دار صادر بیروت وکتب دیگر۔

[69]۔نقل از فتح الباری فی شرح صحیح بخاری، ج۳/ ۲۴۴، باب المیت،یسمع خفق النعال۔

[70]۔فتاوی ابن حجر، ۲، ص ۹، باب الجنائر طبع دار الفکر بیروت۔

[71]۔سورہ بقرہ، آیت ۱۵۴۔

[72]۔سورہ حج،آیت ۲۷۔

[73]۔تفسیر ابن کثیر دمشقی، ج۳/ ۲۲۶، طبع دار المعرفۃ،بیروت؛ تفسیر ابن جریر طبری، جزء ۱۷، ص ۱۰۶، طبع بیروت؛ تفسیر بیضاوی، ج۳/ ۱۴۰۔ ۱۴۱،طبع بیروت؛ تفسیر در منثور، ج۶، ص ۳۲۔ ۳۳؛ تفسیر مختصر القرآن الکریم للخازن، ۲/ ۸۳۵ و کتب دیگر۔

[74]۔اہل سنت کی کتاب فرائد السمطین ج۱، ص ۳۶۔ ۳۷ وکتب دیگر۔

[75]۔سورہ بقرہ،آیت ۱۸۶۔

[76]۔سورہ اعراف، آیت ۱۸۰۔

[77]۔کافی۔

[78]۔تفسیر عیاشی۔

[79]۔محمد و آل محمد علیہم السلام کو بارگاہ الٰہی میں وسیلہ اور شفیع بنانے پر بہت سی صحیح احادیث، جملات ادعیہ اور زیارات دلالت کرتی ہیں جو کہ سندی ابحاث سے بے نیاز کردیتی ہیں۔

[80]۔سورہ مائدہ، آیت ۳۵۔

[81]۔سورہ بقرہ،آیت ۳۷۔

[82]۔تفسیر در منثور ۱/ ۱۴۷، طبع دار الفکر بیروت و کتب دیگر۔

[83]۔سورہ یوسف، آیت ۹۷۔ ۹۸۔

[84]۔تفسیر عیاشی ۲/ ۱۹۶۔

[85]۔سورہ یونس، آیت ۱۸۔

© COPYRIGHT 2020 ALJAWAAD ORGAZNIZATION - ALL RIGHTS RESERVED
گروه نرم افزاری رسانه