ضعیف حدیث کی اقسام

شہید ثانی فرماتے ہیں:

وہ اوصاف جوضعیف حدیث کے ساتھ مختص ہیں وہ آٹھ ہیں:

١۔موقوف: جوکسی معصوم کے صحابی کی طرف قول یافعل کے حوالے سے منسوب ہو.

موقوف روایت حجت نہیں ہوتی اگرچہ اس کی سند صحیح ہی کیوں نہ ہو(چونکہ غیرمعصوم کاقول حجت نہیں ہے)

٢۔مقطوع: جواثرتابعین یاجوان کے حکم میں ہیں کی طرف منسوب ہو یہ بھی حجت نہیں ہے.

٣۔مرسل: وہ روایت ہے جس کو معصوم سے روایت کرے اوربغیر واسطہ کے اس کودرک نہ کرے یاواسطہ کے ساتھ جس کوبھول گیاہو یاترک کردے یامبہم ہو جیسے کہے قال رسول اللہ ۖ کذا أوکذا یاکہے عن رجل.یاکہے عن بعض اصحابنا.یااس طرح کی تعبیرات وغیرہ مرسل روایت حجت نہیں ہوتی چونکہ محذوف کاحال معلوم نہیں ہے. (۱)

اگرروایت، سندکے حوالے سے مرسل ہو لیکن اس روایت کامضمون اتنابلندہو کہ جس کاغیرمعصوم سے صادرہونا مشکل ہو یا روایت قرآن اور سنت کے موافق ہو یاکسی محدث نے اس روایت کومعصوم کی طرف جزماً نسبت دی ہو مثلاً کہے قال الصادق علیہ السلام کذا.توان صْوَر میں حقیر کےنزدیک وہ روایت قابل عمل ہے اگرچہ وہ روایت ضعیف السند یامرسل ہی کیوں نہ ہو.

٤۔معلّل: وہ خبرہے جس میں خفی،پیچیدہ اسباب پائے جاتے ہوں جو کہ خبر کی صحت میں مضرہوں اگرچہ ظاہرمیں خبرسالم ہواور اس کی پہچان، حدیث کے اسناد اورمتون سے خبیراورماہر لوگ ہی کرسکتے ہیں.

٥۔تدلیس: کسی راوی کاایسے شخص سےروایت کرنا جس سے اس کالقاء ہولیکن روایت مذکورہ اس سے نہیںسن سکااورروایت بھی ایسے لفظوں سے کرے جوموہم سماع ہوں جیسے کہے قال فلان.یاعن فلان

تدلیس کبھی اسناد میں ہوتی ہے اورکبھی تدلیس شیوخ میں ہوتی ہے جیسے کسی استاد سے حدیث کوسنے لیکن اس کا کسی وجہ سے نام لینا پسند نہ کرتاہو اس کوکسی غیرمعروف نام یاکنیت سے ذکرکردے.

٦۔مضطرب: وہ ہے جس کے راوی حدیث میں متن اوراسناد کے حوالے سے اختلاف رکھتے ہوں کبھی ایک وجہ پرروایت کرے اورکبھی اس کے مخالف روایت کرے.

البتہ مخفی نہ رہے کہ اضطراب اس صورت میں متحقق ہوگا جب دونوں رواتیں مساوی ہوں وگرنہ اگرایک روایت دوسری پرحفظ اورضبط وغیرہ کے حوالے سے ترجیح رکھتی ہوتوحدیث مضطرب نہیں ہوگی.

٧۔مقلوب: وہ ہے جوایک طریق سے واردہو پھراس سے بہتر طریق سےروایت کی جائے تاکہ لوگ اس میں رغبت کریں.اورکبھی علماء ایک دوسرے سے حفظ اورضبط کے امتحان کی خاطر ایسا کرلیتے ہیں.

٨۔موضوع: من گھڑت روایت کوکہتے ہیں اوریہ خبرضعیف کی بری اقسام سے ہےاوراس طرح کی روایت کوذکرکرناجائزنہیں ہے مگر وضع کی حقیقت کوآشکار کرنے کے لئے.موضوع روایات کے بیان کے سلسلے میں کتاب الدرر الملتقط فی تبیین الغلط ،تالیف حسن بن محمدصغانی کامطالعہ مفیدہے.

میرداماد فرماتے ہیں کہ صغانی کی کتاب الدرر التقط فی تبیین الغلط میں جن احادیث کا ذکر کیا ہے اوران کو موضوع قرار دیاہے ، ان میں اکثر احادیث پر وضع کا حکم لگانا زیادتی ہے ہاں بعض احادیث نقل بالمعنیٰ ہیں اور بعض عترت طاہرہ کی احدیث ہیں ان کی کلام آنجناب ۖ کی کلام سے ہے ا ن کی حدیث،ان کا علم ، ان کی حکمت، آنحضرتۖ کی حکمت، حدیث سے ہے .جن احادیث کو صغانی نے موضوع نقل کیا ہے ان میں سے موضوع احادیث کی تعداد کم ہے.(۲) حقیر ، راقم الحروف نے بھی اصل کتاب مذکورہ کو ملاحظہ کیا ہے حقیقت وہی ہے جس کو محقق میرداماد نے فرمایا ہے:

من گھڑت روایت کی پہچان کاایک طریقہ واضع(حدیثیں گھڑنے والے) کےاقرار کے ساتھ یااس روایت کے الفاظ کی رکاکت یاروایت میں غلطیوں کے وقوف سے پہچان ہوسکتی ہے.یاکہ وہ روایت قرآن وسنت کے مخالف ہویااس سے معصومین علیہم السلام کی ہتک نکلتی ہویاان کے خاندان کی ہتک پرمشتمل ہو.جیسا کہ بنی امیہ کے دورمیں بہت حدیثیں گھڑی گئیں جیساکہ سمرة بن جندب نے معاویہ سے چارلاکھ درہم لے کر حضرت علی علیہ السلام کی مذمت میں حدیث گھڑی تھی.(۳)

نوٹ: حدیث گھڑنے والوں کی کئی قسمیں ہوتی ہیں جس میں سب سےزیادہ مضروہ ہے جوبظاہر اپنےآپ کوبغیرعلم کے زھدوتقوی میں ظاہرکرکے حدیث کوقربة الی اللہ گھڑے اورلوگ اس کومتقی سمجھ کرمان لیں.جیسا کہ دشمنان علی علیہ السلام کی مرویات.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱) بعض اصحاب کی مرسلات علماء کےنزدیک مقبول ہیں مانند مرسلات ابن ابی عمیر

(۲) الرواشیح والسماویة ص٢٨٧۔٢٨٨.

(۳) اور تذکر الموضوعات ، تالیف محمد طاہر فتنی ہندی.

© COPYRIGHT 2020 ALJAWAAD ORGAZNIZATION - ALL RIGHTS RESERVED
گروه نرم افزاری رسانه