باب اول
حدیث کی اقسام
حدیث کی چارقسمیں ہیں اورباقی انواع انہی کی طرف پلٹتی ہیں.
١۔صحیح: یعنی سب طبقات میں جس کی سند عادل شیعہ اثناعشری سے معصوم کے ساتھ متصل ہو.(١)
تو اس بناء پر اگر کسی طبقہ میں سند مقطوع ہوتواسے خبرصحیح نہیں کہاجائے گا اگرچہ اس کے دوسرے راوی عادل ہی کیوں نہ ہوں.مخفی نہ رہے کہ سند کی صحت یا(حسنہ) سے یہ لوزم نہیں آتاکہ حدیث کا متن ، مدعیٰ پر تاماًدلالت کررہا ہو. اس نتکہ سے غفلت کی وجہ س کئی ایک بزرگان سے مختلف مقامات پر لغزشیں ہوئی ہیں مناظرین اس نکتہ پر خصوصی توجہ رکھیں .
٢۔حسن: وہ حدیث ہے جس کی سند معصوم کے ساتھ ممدوح امامی(شیعہ) جس کی عدالت پرنص نہ ہو کے ساتھ متصل ہوخواہ سب طبقات میں ہویابعض میں .اگر روایت کی سند میں ایک ممدوح غیرموثق پایاجائے تووہ روایت حسن کہلائے گی اگرچہ اس کے دوسرے راوی عادل امامی ہوں.
خلاصہ یہ کہ سند کی طریق کے صفات میں نتیجہ تابع اخس ہوگا.یعنی اگرایک راوی بھی ضعیف یاغیرامامی یاغیرعادل ہوتو اسی کے اعتبار سے حدیث کوسمجھا جائے گا.
تذکر: حسن حدیث کوقبول کر نے کے بارے میں علماء اختلاف رکھتے ہیں. بعض،حسن حدیث پرعمل کرتے ہیں اوربعض مطلقاًرد ّکرتے ہیں اوربعض تفصیل کے قائل ہیں. شیخ الطائفہ شیخ طوسی حسن روایت پرمطلقاً عمل کرتے ہیں جیساکہ ان کے عمل سے ظاہرہے اور اکثر علماء نےروایت کے قبول کرنے میں ایمان اورعدالت کی شرط لگائی ہے جیساکہ علامہ حلی نے اپنی کتب اصولیہ وغیرہ میں اس چیز پریقین کیا ہے.شہیدثانی فرماتے ہیں عجب ہے شیخ طوسی پر انہوں نے بھی اپنی کتب اصول میں ایمان اورعدالت کی شرط لگائی ہے.لیکن اس کے باوجود کتب فروع اورحدیث میں ان کے غرائب پائے جاتے ہیں کبھی تووہ خبرضعیف پرمطلقاً عمل کرتے ہیں یہاں تک کہ اخبار صحیحہ کوبھی خبرضعیف کے ساتھ تخصیص لگادیتے ہیں اورکبھی خبرضیعف کواس کے ضعف کی وجہ سے رد کردیتے ہیں اورکبھی خبرصحیح کوردکردیتے ہیں چونکہ یہ خبر واحدہے جوعلم وعمل کاموجب نہیں ہے.(۲)
اورکبھی شاذ روایت پربھی عمل کرلیتے ہیں.(۳)
٣۔مؤثق: وہ خبرہے جس کے سلسلہ سندمیں فاسد العقیدہ شخص پائے جاتے ہوں جن کی توثیق پرعلماء نے صراحت کی ہو.اس خبرکوقوی بھی کہاجاتاہے.البتہ باقی سند کے افرادضعیف نہ ہوں وگرنہ وہ ضعیف محسوب ہوگی لجھة اتباعہ للأخس.
تذکر: مخفی نہ رہے کہ کبھی امامی راوی جس کی نہ تعریف کی گئی ہو اورنہ ہی مذمت اس کوبھی خبر قوی کہاجاتاہے.
خبرمؤثق کے قبول کے بارے میں علماء کے تین قول ہیں بعض نے مطلقاًقبول کیاہے اوربعض نے مطلقاًردّ کیاہے اوربعض کےنزدیک تفصیل ہے کہ اگرعلماء کے درمیان مشہورہے توقبول ہے ورنہ نہیں.
٤۔ضعیف:(١) جس میں خبرصحیح،حسن اورموثق کی شرائط میں سے کوئی شرط نہ پائی جائے.یعنی خبرکی سند میں فاسق وغیرہ ہو.یامجھول الحال یاوضاع(حدیث کوگھڑنے والا)وغیرہ ہو.
مخفی نہ رہے کہ ضعف کے درجات بھی مختلف ہوتے ہیں.ممکن ہے کسی سند میں ایک راوی ضعیف ہواور کسی کی سندمیں زیادہ ضعیف ہوں تو یہ کثرت ضعف والی روایت علم اصول میں دو قولوں میں سے ایک قول کی بناء پر کسی جامع الشرائط فقیہ کے فتویٰ سے بھی استحباب ثابت ہوجاتا ہے ۔ تہذیب الاصول تالیف آیةاللہ سبزواری ج٢ ،ص١٧٠.
اضعف ہوجائے گی.اسی طرح صحیح،حسن اورموثق کے درجات بھی متفاوت ہوتے ہیں.
اورقوت کااثر تعارض حدیثین کے وقت ظاہرہوتاہے جب کہ دوحدیثیں اپنے مدلول کے اعتبار سے ٹکراجائیں تواقوی الحدیثین جوان دوحدیثوں میں زیادہ قوی ہواس کولے لیاجاتاہےاور دوسری کوچھوڑدیاجاتاہے .
تذکر: ممکن ہے کہ کسی حدیث کی سند ضعیف ہوتوآپ یہ کہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے تواس سے مراد اس کی سند ہے کہ اس حدیث کی سندضعیف ہے نہ یہ کہ اس کامتن ضعیف ہے ممکن ہے کہ یہی حدیث کسی دوسری صحیح سند کے ساتھ ثابت ہو.
خبرضعیف پرعمل کرنے کے بارے میں علماء اختلاف رکھتے ہیں.اکثرعلماء نے مطلقاًخبر ضعیف پرعمل کرنے کوناجائز قرار دیاہے.
اوردوسرے علماء نے جائز قراردیاہے.شرطیکہ وہ روایت شہرت روائی رکھتی ہو یعنی کتب حدیث میں علماء نے اس کوذکرکیاہویایہ کہ اس خبرضعیف کے مضمون پر فقہی کتب میں علماء نے فتوی دیاہو.یعنی عمل علماء کے ساتھ سندکے ضعف کاجبران ہوجائے گا.
نیز مخفی نہ رہے کہ جناب شہید ثانی فرماتے ہیں کہ یہ شہرت،شیخ طوسی کے زمانے سے پہلے محقق ہو.اورایسی شہرت متحقق نہیں ہے شیخ طوسی نے اپنی فقہی کتب میں ضعیف روایات پرعمل کیاہے ان کے بعد آنے والے اکثر علماء نے ان کی تقلید کی ہے اورخود تحقیق نہیں کی.پھر متاخرین علماء نے جب دیکھا کہ اسی ضعیف روایت پرعمل مشہور ہے تووہ اس شہرت کوشہرت جابر سمجھ بیٹھے اگرکوئی منصف اورمحقق دقت کرے تواس چیز کی بازگشت کوشیخ طوسی کی طرف پائے گااور اس طرح کی شہرت،خبر ضعیف کے جبران کے لیے کافی نہیں ہے . (۵)
جب روایت میں عن ابی جعفر ، واردہو توظاہر یہ ہے کہ اس سے مراد اما م باقر علیہ السلام ہیں اوراگر ابو جعفر ثانی وارد ہو تو مراد امام محمد تقی علیہ السلام ہیں اورکبھی ابو جعفر مطلق استعمال ہوتا ہے لیکن اس سے مراد بھی امام تقی علیہ السلام ہوتے ہیں تمیز ، رجال کے ذریعہ حاصل ہوگی.
جب روایت میں عن ابی عبد اللہ واردہو تو اس سے مراد امام جعفر صاد ق علیہ السلام ہیں اوراسی طرح اگر عن أبی اسحاق واردہو تو بھی مراد امام جعفر صادق علیہ السلام ہیں.
اگر روایت میں عن ابی الحسن واردہو توظاہر یہ ہے کہ اس سے مراد امام موسیٰ کاظم علیہ السلام مراد ہیں.
اور اگر عن ابی الحسن الثانی واردہوا ہو تو مراد امام علی رضا علیہ السلام ہیں .
اور اگر عن ابی الحسن الثالث واردہوتو مراد امام علی نقی علیہ السلام ہیں.
اور کبھی مطلق استعمال ہوتا ہےاور اس سے مراد امام علی رضا علیہ السلام یا امام علی نقی علیہ السلام ہوتے ہیں تعیین، رجال کے ساتھ ہوسکتی ہے.
جب روایت میں عن ابی ابراہیم یا العبد الصالح یا عن الفقیہ واردہو تو اس سے مراد امام موسیٰ کاظم علیہ السلام ہیں .امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے زمانے میں شدت تقیہ اورخوف کی وجہ سےآپ کے شیعہ ، آپ کا نام نہیں لے سکتے تھےآپ کی کنیت اورالقاب سے انھیں یا د کرتے تھے.
روایت میں کبھی فقیہ کا اطلاق ہوتا ہےاور اس سے مراد قائم ہیں اورکبھی فقیہ سے مراد امام عسکری ہوتے ہیں .
اورجب روایت میں عن الرجل کہا گیا ہو توظاہراً اس سے مراد بھی امام عسکری ہیں.
اور جب روایات میں عن صاحب لناحیة واردہو تو ظاہریہ ہے کہ اس سے مراد حضرت قائم ، امام مہدی علیہ السلام ہیں. (۶)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) ایک سنت کےنزدیک صحیح حدیث کی تعریف یہ کہ جس کے سب راوی عادل اور تام ہوں سند متصل ہو.معلول اورشاذبھی نہ ہو. اہل سنت،اپنے مخالف جوعادل ہواور اس کاخلاف کفرکی حدتک نہ ہواصح اقوال کے اس کی روایت کوبھی قبول کرتے ہیں اس اعتبار سے ان کی احادیث صحیحہ کثیر ہوجائیں گی نیز وہ عدالت میں عدم ظہور فسق کوکافی جانتے ہیں اورمسلمان کے ظاہرحال پربناء رکھتے ہیں تواس بناء پر ہمارےنزدیک حسنہ اورموثقہ روایات ان کےنزدیک صحیح ہیں .
(۲) الدرایة للشہید الثانی ص٢٦ .
(۳) الدرایة للشہید الثانی،ص٢٥.
(۴) اکثر علماء ، قصص ، مواعظ اورفضائل اعمال میں ضعیف روایت( جو حد وضع تک نہ پہنچی ہو)پر عمل کو جائز سمجھتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ مشہور محقق علماء کےنزدیک قاعدہ تسامح فی ادّلة السنن مشہور ومعروف ہے۔ مثلاً اگر کسی ضعیف روایت میں کسی عمل کے ثواب کا ذکر آیاہو تو اس روایت سے عمل کااستحباب مشہور فقہاء کےنزدیک ثابت ہو جاتا ہے اگر چہ اس روایت کی سند ضعیف (یا وہ روایت مرسل ہی) کیوں نہ ہو۔ چنانچہ صحیح روایت میں منقول ہے کہ جس کو کسی عمل کا ثواب حضور سے پہنچا ہواور وہ حضور کا فرمان سمجھ کر اس پر عمل کر لے تو اس کو وہ ثواب دیاجائے گا اگر چہ رسول خدا ۖنے نہ بھی فرمایا ہواور بقصد رجاء (ثواب کی امید سے) بجا لانا سب فقہاء کےنزدیک صحیح ہے.
(۵) الدرایة،ص٢٨.
(۶) نقد الرجال ج٥، ص٣١٦.٣١٧.