خبر اورحدیث کا فرق
علم درایت میں خبر اورحدیث ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں وہ کلام جو قول معصوم اورفعل معصوم وتقریر معصوم کی حکایت کرتاہے اس کوخبراورحدیث کہتے ہیں.(۱)
نوٹ:کبھی حدیث اس کوکہاجاتاہے جومعصوم سےوارد ہوئی ہو.
اورخبر جوغیرمعصوم سےوارد ہوئی ہو،اوراثران دونوں سے مطلقاًاعم کوکہتے ہیں. یعنی خواہ معصوم سےوارد ہو یا غیر معصوم سے.
ہرحدیث میں سند ،اسناداورمتن پایاجاتاہے(اگرچہ کبھی سند حذف کردی جاتی ہے)
سند:حدیث تک پہنچنے کاسلسلہ اورطریق کانام ہے.
الاسناد:سند کوبیان کرنے کانام ہے کبھی سند کوبھی اسناد کہاجاتاہے.
المتن :حدیث کے الفاظ جومعنی پردلالت کرتے ہیں.بعبارت دیگر سند کے ختم ہونے کے بعد کلام کے حصے کومتن کہاجاتاہے.
تنبیہ:شاہ عبد العظیم حسن جن کامزار ، ری ، تہران ۔ میں ہے ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان کی روایت حسن ہے چونکہ وہ ممدوح ہیں اورن کی توثیق منصوص نہیں ہے.
اقول:یہ گفتار انتہائی مستھجن اورقبیح ہے ، شاہ عبد العظیم کا نسب مبارک چار واسطوں سے امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام تک پہنچتا ہے۔ عبد العظیم بن عبد اللہ بن علی بن الحسن بن زید بن الحسن بن علی بن ابی طالب .(۲)
محدث قمی آپ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ آپ کی عظمت شان اورجلالت مقام اظہر من الشمس ہے کیونکہ وہ جناب اس کے علاوہ کہ خاتم الانبیاء کی نسل میں ہیں ، اکابر علماء ۔ زہاد عباداور صاحبان ورع و تقویٰ میں ان کا شمار ہوتا ہے امام جواد علیہ السلام اور حضرت امام ہادی علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے ان سے بے حد قریبی رابطہ اورتعلق رکھتے تھے ۔ ان سے بہت سی حدیثوں کی روایت کی ہے .
وہ کتاب خطب امیر المومنین علیہ السلام و کتاب یوم ولیلہ کے مؤلف ہیں وہی وہ ہیں جنھوں نے اپنی دین کو اپنے زمانہ کے امام حضرت ہادی علیہ السلام کی کدمت میں پیش کیا تھااور حضرت نے ان کی تصدیق کی تھی اورفرمایا تھا یا ابو القاسم ''ھذاواللہ دین اللہ الذی ارتضاہ لعبادہ فاثبت علیہ ثبتک اللہ بالقول الثابت فی الدنیاوالاخرة.''
اے ابو القاسم! یہ بخدا دین خداہے جس کو خدانے بندوں کے لئے پسند کیا ہے اس پرثابت قدم رہےخدا آپ کوثابت رکھے قول ثابت پر دنیااور آخرت میں .(۳)
محمد شیخ عباس قمی نیز لکھتے ہیں کہ صاحب بن عباد نے عبد العظیم کے علم کے بارے میں لکھا ہے کہ روایت کی ہے ابو تراب رویانی سے کہ میں نے ابوحمادرازی سے سنا ہے وہ کہتے تھے کہ میں سر من رای میں امام نقی علیہ السلام کے پاس حاضر ہوااور میں نے اسے اپنے تمام مسائل حلال و حرام کو دریافت کیا انھوں نے میرے مسائل کے جوابات دیئے پھر جس وقت میں ان سے رخصت ہونے لگااورباہر نکلنے لگا تو فرمایا اے حما د جب تمہارے لئے دین کا کوئی امر مشکل در پیش ہو تو شہر رے میں تو اس کے بارے میں عبدالعظیم بن عبد اللہ حسنی سے سوال کرنااور ان تک میرا سلام پہنچادینا.(۴)
شاہ عبد العظیم حسنی کی اپنے عقائد پیش کرنےروایت میں ہے کہ امام نقی علیہ السلام نے انھیں فرمایا :''انت ولینا حقاً''کہ حقاً تو ہمارا دوست ومدد گار ہے .(۵)
ابن بابویہ اورابن قولیہ نے معتبر سند کے ساتھ روایت کی ہے ایک ری کا آدمی امام نقی علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا امام نے اس سے پوچھا کہ کہا تھے اس نے کہا کہ زیارت امام حسین علیہ السلام کے لئے گیا تھا امام نے فرمایا کہ اگر تم عبد العظیم کی قبر کی زیارت کر لیتے جو تمہارے قریب ہے تو اس شخص کی طرف ہوتے جس نے امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی ہو.(۶)
محقق میر داماد اپنی کتاب میں تحری فرماتے ہیں :''وفی فضل زیاتہ رویات متضافرة فقدورد ، من زارقبر وجبت لیہ الجنة''.(۷)
شاہ عبد العظیم حسنی، کی زیارت کی فضیلت میں متضافرروایات پائی جاتی ہیں اور روایت میں واردہوا ہے کہ جو شخص ان کی قبر کی زیارت کر لے اس پرجنت واجب ہے.
ان کی زیارت میں یہ جملہ بھی زائرین پڑھتے ہیں یا سیدی وابن سید اشفع لی فی الجنة اے میرے سرداراور میرے سردار کے فرزند میرے لئے شفاعت کیجئےجنت کی ، اس لئے کہ آپ کا خداکے ہاں مرتبہ ، مقام ہے .(۸)
جن کا یہ مرتبہ اورمقام ہو کیا ان سےروایت کی صحت کے لئے یہ کافی نہیں ہے؟
مقام میں اصح، ، ارجح، اصوب، اقوم یہ ہے کہ جہت سے سند، صحیح بلکہ صحت کے بلند مرتبہ میں محسوب ہوگی جیسا کہ محقق جلیل میرداماد نے بھی یہی فرمایا ہے.(۹)
خبر:جس میں بذات خودصدق اورکذب کااحتمال پایاجاتاہوقطع نظر اس کے کہ قائل صادق ہویاکاذب ہو.پس ہرخبرواقع میں یاسچی ہے یاجھوٹی.
اورکبھی صدق وکذب،خودخبر سے ہٹ کر،امورخارجیہ کی وجہ سے معلوم ہوجاتاہے.جیسے تواتر سے یانبی اورامام کاخبر دینا. یا خبرکامحفوف بالقرائن ہونا.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) اہل سنت کےنزدیک حدیث کی تعریف.جوچیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے منقول ہو.اہل سنت کےنزدیک حدیث کادائرہ ضیق ہے اورہمارےنزدیک حدیث کادائرہ وسیع ہے یعنی پیغمبر کے ساتھ ائمہ طاہرین علیھم السلام کاقول وفعل اورتقریر بھی حدیث کے زمرے میں شامل ہے.جیسا کہ تعریف سے معلوم ہے.
(۲) ابن بابویہ نجاشی وغیرہ نے ان کو عابد ، ورع اورمرضی کہا ہے کمافی جامع الرواة والراوشع السماویة.
(۳) مفاتیح الجنان مترجم ص١٠٣٦۔١٠٣٧.
(۴) حوالہ بالا ص١٠٣٨.
(۵)کتاب التوحید ، ص٨١، بحار الانوار،ج٣، س٢٦٨۔ جامع احادیث الشیعہ ج١، س٥٦٠.
(۶)ثواب الاعمال ١٢٤ باب ثواب زیارہ قبر عبد العظیم الحسنی بالری.مفاتیح الجنان ص١٠٣٨،١٠٣٩.
(۷)الرواشح والسماویة ،ص٨٦ طبع دارالحدیث قم.
(۸)مفاتیح ص١٠٤١.
(۹) الرواشح السماویة ص٨٧.
خبر کی دوقسمیں ہیں خبرمتواتر وخبرواحد
خبرمتواتر جس کے روای کثرت میں اس حدتک پہنچ گئے ہوں کہ عادتاًان کا جھوٹ پرجمع ہونامحال ہو.اورروایت کے ہرطبقہ میں تواتر پایاجاتاہو.البتہ خبردینے والوں کے لئے کسی خاص عددکی شرط نہیں ہے.
تواتر مفید علم ہوتاہے جب درج ذیل شرائط پائی جائیں.
١۔خبر سے پہلے سامع(سننے والا)خبرکے مدلول سے باخبر نہ ہو ورنہ تحصیل حاصل لازم رہے گی.
٢۔سامع کاذہن شبہ سے صاف ہوایساشبہ جوتواتر کے مدلول سے منافات رکھتاہو.
٣۔خبردینے والوں کااسناد حسّ کی طرف ہو،حدس(اندازہ،تخمینہ)اوراستدلال عقل سے نہ ہو.
تواتر دوطرح کاہوتاہے.تواتر لفظی وتواتر معنوی.
تواترلفظی یعنی ہرخبر میں ایک طرح کے بعینہ الفاظ پائے جاتے ہوں.
تواتر لفظی شریعت میںبہت پایاجاتاہے.جیسے فریضہ نماز.نماز کی رکعات،صوم ،حج،زکواة وغیرہ
تواتر معنوی: ایک طرح کے الفاظ نقل نہ ہوئے ہوں بلکہ مختلف الفاظ کے ساتھ وہ خبر نقل ہوئی ہو.
خبرواحد: خبر واحدوہ ہے جو تواتر کی حدتک نہ پہنچی ہو.اور اس کی چند قسمیں ہیں.
خبر مستفیض: وہ خبر ہے جس کے ہرطبقہ میں دویاتین سے زائد راوی ہوں اور اس کو مشہور بھی کہاجاتاہے.
نوٹ: ١:.خبر مستفیض اورمشہور کے درمیان بھی فرق بیان کیاجاتاہے مستفیض وہ ہے جس کےرواة(راویوں)کی تعداد ابتداء سے انتہائ(آخر) تک ہرطبقہ میں برابرہو.اورمشہور اس سے اعم کوکہتے ہیں.
٢۔خبرغریب:جس میں ایک راوی ہو.
٣۔خبر مقبول: جس پر علماء نے عمل کیاہواوروہ ان کےنزدیک مقبول ہوگئی ہو.
٤۔مردود: جس کو کسی راوی میں مانع کی وجہ سے یامتن میں یاکسی اورجہت سے علماء نے ترک کردیاہو.
٥۔مشتبہ: وہ خبر ہے کہ جس کاحال راوی کے حال کی وجہ سے مشتبہ ہو.
تذکر: اس علم میں احادیث کے متون اور ان کی دلالت پربحث نہیں کی جاتی مگرنادر بلکہ اس میں حدیث کی قوت وضعف وغیرہ کے وہ اوصاف جن کی برگشت رواةکے اوصاف کی طرف ہے عدالت وضبط ایمان کے اعتبار سے یااسنادکے حوالے سے اتصال ،انقطاع،ارسال وغیرہ کے حوالے سے بحث کی جاتی ہے.
نوٹ: خبرواحدکی حجیت کے بارے میں علماء اختلاف رکھتے ہیں جیسے سیدمرتضی خبرواحدکوحجت نہیں سمجھتے اوراکثرفی الجملہ اس کی حجیت کے قائل ہیں.